تحریر: جاوید احمد ادریسی.
آج صبح سے، جب سے میں اُٹھا ہوں تب سے اِس تحریرکے لکھے جانے تک مجھے متعدد افراد علی شیخانی کی ویڈیو شیئر کر چُکے ہیں جس میں وہ یہ ”اعلان” کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ کراچی کے ستائے ہوئے لوگوں کے مسیحا بن کر K Electric کو خرید کر ، کراچی والوں کے دکھوں کو دور کر کے اِس شہر ناپُرساں کے تباہ حال لوگوں کی ”خدمت” کرنا چاہتے ہیں اور اس کارِ خیر کو سرانجام دینے کے لئے اُنہوں نے نام نہاد مسیحا اور سوشل میڈیا ورکر ظفر عباس صاحب کا انتخاب کیا (از راہِ تفنن ماشاء اللہ کہا جائے، سُبحان اللہ کہا جائے یا استغفراللہ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا) موصوف نے تقاضہ کہ حضرت والا پتہ کریں کہ K Electric نامی ایسٹ انڈیا کمپنی کو کیسے خریدا جائے، اور اس کے لئے اُنہیںکس سے رابطہ کرناہوگا فوری بتایا جائے وغیرہ وغیرہ۔
سوشل میڈیا ورکر ظفرعباس کی ”شان” کیا ہی بیان کی جائے کیوں کہ وہ ایک ایسی ہستی ہیں جو کسی بھی ”تعارف” کی محتاج نہیں نیز یہ بھی کہ علی شیخانی اور ظفرعباس عشق کے ایک ہی مکتب کے شاگرد ہیں اور دونوں ہی کی چُھٹی بندہے۔
ٹیکساس (امریکہ) کے رہائشی 38 سالہ علی شیخانی۔۔۔ جو 600 ملین امریکی ڈالرز والے شیخانی گروپ کے واحد کرتا دھرتا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امریکی پولیس آفیسر بھی ہیں جن کا شمار دنیا کے امیر ترین نوجوان بزنس ٹائیکون میںہوتا ہے ایسا شخص پاکستان کے شہر کراچی کے چند خیراتی اداروں میں سے ایک کے سربراہ سے رابطہ کر کے K Electric خریدنے میں مدد کا طالب ہے یہ بات فقیر کی سمجھ سے تو بالہ ترہے۔ علی شیخانی کی یہ عجب حرکت سے جہاں کئی سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہیں ساتھ ہی ساتھ یہ کچھ خدشات کو بھی جنم دے رہی ہے مثلاً ۔۔۔علی شیخانی براہ راست ریاستِ پاکستان کے ناخُدائوں سے رابطہ کر کے بھی تو یہ کام کر سکتے تھے، موجودہ مرکزی حکومت جو پہلے ہی نجکاری کو فروغ دینے میں سرگرم عمل ہے اُس سے بھی یہ رابطہ کیا جا سکتا تھا، کئی دہائیوں سے صوبۂ سندھ پر راج کرنے والی حکومت سے بھی رابطہ کیا سکتا تھا۔ ایک مست سا پرپوسل بنا کر متعلقہ سرکاری افراد یا کسی 10,20 فیصد والے باباجی سے بھی مل کر اس پرڈھنگ سے بات چیت کی جاسکتی تھی کارپوریٹ کلچر میں یہ تو عام پریکٹس شمار کی جاتی ہے۔ لیکن آخر ایسا کیا ھوا کہ علی شیخانی نے اپنا SOT ریکارڈ کروا کر پہلے اپنے اکائونٹ پر پوسٹ کیا اور بعد میں سوشل میڈیا ورکر کے اکائونٹ سے اُس سے پوسٹ کروایا؟ خیر جلد یا بدیر یہ راز بھی کھُل ہی جائے گا کہ اس کے پیچھے کی اصل کہانی آخر کیا تھی یا کیا ہے۔
فی الحال کراچی والے قبل از وقت خوشیاں منانے میں لگے ہوئے ہیں کہ ممکنہ طور پر K Electric شاید بک جائے اور علی شیخانی ٹیک اوور کر کے کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھ دے۔ لیکن یہ اتنا آسان اورفوری طور پر ممکن نہیں!! کیوں کہ 19 جنوری 2024 کو نیپرا نے Electric Kکے پاور سپالئی اینڈ ڈسٹری بیوشن لائسنس کی تجدید کر دی تھی۔ اس تجدید کا فیصلہ ایک جامع سماعت کے بعد کیا گیا تھا جو 28 نومبر 2023 کو اختتام پذیر ہوئی اور اب نیپرا نے K Electric کو کراچی، اُوتھل، بیلہ، وندر، حب، دھابیجی اور گھارو میں بجلی کی فراہمی جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اوائل میں لُٹے پُٹے قافلے والوں کی جانب سے بسایا گیا یہ شہر جو کئی دہائیوں سے بیوہ کی اُجاڑ مانگ کا سا منظر پیش کررہا ہے اُس کے باسیوں کو دکھایا جانے والا یہ خوشنما سپنا کب تک سچ ثابت ہوتا ہے ۔۔۔یا ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟؟؟