تحریر: جویریہ ریاض۔
آج صبح سے ہی مطلع آبرآلود تھا۔ ٹھنڈی میٹھی ہوا بھی آنگن میں لگے درختوں کے پتوں سے سرگوشیاں کر رہی تھی۔ یوں گماں ہو رہا تھا کہ جیسے آج مینہ برس جائے گا اور باقاعدہ سردی کے موسم کا آغاز ہو جائے گا۔
حلیمہ آج گھر پر ہی تھی، گزشتہ کئی روز سے اس کی طبیعت ناساز تھی۔ امی اس کی اس بگڑی ہوئی کھانسی کو لے کر بے حد پریشان تھی، کوئی دوا کوئی گھریلو ٹوٹکہ نہیں چھوڑا مگر آرام تھا کے آئے نہیں دے رہا تھا۔
حلیمہ کے دھیان بٹانے کو وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی جب کھڑکی سے سرد ہوا کا جھونکا آیا۔ وہ کہنے لگیں ”کیا وقت تھا کہ ہمارے زمانے میں اس مہینے میں خوب ٹھنڈ ہو جایا کرتی تھی۔ ہلکی پھلکی بارشیں ہونے سے خنکی اور بڑھ جاتی تھی۔ اب تو بچپن والا سرما ہی نہیں آتا نجانے ہم سے سب موسم کیسے روٹھ گئے؟“
حلیمہ نے طویل خاموشی کو توڑا ”امی جان روٹھنا کہاں ہے، ہم نے خود ہی ان موسموں کو ناراض کر دیا ہے۔“ درخت لگانے کی بجائے ان کو کاٹ کاٹ کر عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں، سڑکوں پر بڑھتی ہوئی گاڑیوں، موٹروں کی تعداد، کوڑا کرکٹ کو لگائی جانے والی آگ، اور تو اور کسانوں نے زرعی اراضی کی صفائی کا جو آسان طریقہ اپنایا ہوا ہے فصل کاٹو باقیات کو آگ لگا دو۔ یہ سب کارنامے جو ہم قدرت کے توازن کو بگاڑنے میں سر انجام دے رہے ہیں انھی کا نتیجہ ہے یہ موسمی تغیرات اور بارشوں کا نہ ہونا۔
موجودہ اسموگ کی جو صورت حال ہے یہ کھانسی بھی اسی وجہ سے ہے۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب کی بات سنی نہیں تھی جب وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح سے یہ اسموگ ہمارے پھیپھڑوں کے لیئے نقصان دہ ہے۔اور اس کے لیے ہمیں کتنی احتیاط کرنی چاہیے۔
”یہ ساری باتیں تو ہر کوئی کرتا ہے مگر اس ماحولیاتی آلودگی کا سد باب کیسے ہو؟ اسکے بارے میں ہم اور نہ حکومت کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔“ والد صاحب جو باہر بیٹھے ان دونوں ماں، بیٹی کی گفتگو سن رہے تھے انھوں نے بھی اظہار خیال کیا۔ ابا جان ہم اکیلے کیا کیا کریں گے؟ یہی تو میں کہہ رہا ہوں میری گڑیا! ”کہ اب ضرورت اس امر کی ہے ہر فرد اس مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ گردانتے ہوئے اٹھے اور حل ڈھونڈے۔“ مثلاً درخت لگائیں جائیں، کوڑا کرکٹ کو آگ لگانے کی بجائے آبادیوں سے دور تلف کیا جائے۔ حکومتی سطح پر غیر معیاری پٹرول پر پابندی عائد کی جائے، لوگوں میں ”عوامی ذرائع نقل و حمل“ کو زیادہ استعمال کرنے کی ترغیب دلائی جائے نہ کے ہر شخص اپنی ذاتی سواری استعمال کرے۔
قطرہ قطرہ ہی قلزم بنتا ہے، اگر ہم یہی سب کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو بہت حد تک سوگ جیسی نئی آفت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔گفتگو ابھی جاری تھی کہ اسی اثناء میں بادل گرجے اور بارش چھم چھم برسنے لگی۔ امی باہر چیزیں سمیٹنے کے لیے لپکیں اور والد صاحب نے پکوڑوں کی فرمائش کر کے بدلتے موسم کا مزہ دوبالا کرنے کی ٹھان لی۔