لہو جیسا کوئی سیال ہے
لیکن لہو ہر گز نہیں ہے
لعاب سرخ ہے شاید
جو دل کی نالیوں سے
بہہ کے باہر آگیا ہے
لبوں پہ جم گیا ہے
کسی لاوے کی مانند
سرخ بھورے رنگ کے گارے کی صورت
تھم گیا ہے
یہ پورے جسم پہ جو زخم دکھتے ہیں
یہ گردن خم نہ کرنے کے نشاں ہیں
طبعی موت ہے اس کی
سو اسکو خامشی سے دفن کر دو
لہو جیسا کوئی سیال ہے
لیکن لہو ہر گز نہیں ہے
لہو تو بولتا ہے
لہو ہوتا تو یہ بھی بولتا
بولا؟