خواب غفلت سے جاگنا ، جگانا ،سوال کرنااور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنا عوامی مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم تصور کیا جاتاہے۔۔۔ مختلف معاشروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے لیڈرز مختلف قسم کی تحاریک چلاتے ہیں، ببانگ دہل تخلیقی نعروں یا سلوگنز(Slogans) کا استعمال کیا جاتا ہے۔لانگ مارچ کئے جاتے ہیں ، دھرنے دئیے جاتے ہیں ، جیلیں کاٹی جاتی ہیں، منشور پر عمل کیا جاتا ہے ، متبادل پلان دیا جاتا ہے ، چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری کی جاتی ہے ۔۔ تب جاکے سسٹم میں تطہیر ممکن ہو پاتی ہے ۔عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ اور کرپشن فری پاکستان کی بائیس سالہ مہم ۔۔ اچھوتی اور دلگیر ضرور ہے لیکن حضرت کے پاس چیلنجز سے نمٹنے اور متبادل نظام متعارف کرانے کے لئے پلاننگ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔ گورنمنٹ کی ابتدائی اننگ میں بیٹنگ آرڈر میں اکھاڑ پچھاڑ سے ہی بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ۔ اورجنابِ موصوف کا یہ نعرہ کہ لیڈر شپ دیانت دار ہو تو سب ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔۔ دیوانے کے خواب ۔۔ سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ایسا سسٹم جہاں ہرعہدیدار کی نس نس میں بدعنوانی رچی بسی ہو وہاں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لیڈر کون ہے اور کتنا دیانتدار ہے ۔ ایسے نظام کو کمال کے ماہر جراح (Surgeon)کی ضرورت رہتی ہے جو بلامتیاز و بلاتفریق نظام کے بدلاو کے لئے رسک لے ۔ خان صاحب کی ٹیم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ’بیوروکریسی‘ ہے ۔۔ جسے مجھ جیسا کم فہم کرپٹو کریسی (Corrupto-Cracy)کا نام دیتاہے ،ڈیموکریسی کی سرپرستی میں پھلتی پھولتی کرپٹو کریسی میں کس کس طرح سے لوٹ مار کی جاتی ہے اس کا ایک ٹریلر پارکس اینڈہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور (Parks and Horticulture Authority – PHA Lahore)کے کرپٹو کریٹس کی جانب سے کھلے عام لوٹ مار کی صورت میں آپ کو دکھانے کی کوشش کروں گا ۔کام تھوڑا رسکی ہے لیکن پنجاب کے دل کو دیمک کی طرح چاٹتے اس مافیا کو سامنے لانے کا مقصد خان صاحب کے لئے گائیڈ لائنز کا سامان کرنا ہے ۔اور اگر خان صاحب جانتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پا رہے تودو باتیں ہیں ۔ یا تو خان صاحب کے پاس کوئی متبادل پلان ہی موجود نہیں یا پھرموصوف اس بدعنوان سسٹم سے ٹکر لینے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہ حوصلہ لیڈرز کو سطحی سوچ والے لیڈرز سے ممتاز کرتا ہے۔ خان صاحب اوران کی ٹیم کو دنیا کے بڑے لیڈرز کی جانب سے سسٹم کی تطہیر کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے کچھ سبق لینا ہوگا ۔۔ ماوزے تنگ‘ (Mao Zedong)بھی انہی لیڈرز میں سے ایک ہیں۔۔۔۔ چین کا عہدہ صدارت سنبھالتے وقت کسی نے ماوزے تنگ سے پوچھا کہ آپ نے چین کو کیسے بدلا ۔ ماوزے تنگ نے کمال کاجواب دیا ۔
’ہم شاید صدیوں تک سوئے رہتے کیونکہ ہم نے جاہلوں سے ووٹ اور سوال کا حق چھین لیا تھا، ہم نے انہیں جگایا اور خواب دیکھنا سکھایا اور متبادل نظام یعنی یکساں احتساب کی پہلی اینٹ رکھی‘
آج وہی انقلابی چین ہے جہاں کرپشن کرنے والے کو تختہ دار پر لٹکنا پڑتا ہے۔ احتساب کا عمل کڑا ہے لیکن سوچ کے بدلاو نے قوم کو جگانے کے ساتھ ساتھ نظام بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب یکساں احتساب اورمتبادل پلان کی وجہ سے عمل میں آیا۔ خان صاحب سابق وزرائے اعظم اور سیاسی حریفوں کے احتساب سے فارغ ہوں تو محکمہ جاتی کرپشن کی جانب بھی نظر دوڑائیں جہاں سب اچھا نظر آتا ہے لیکن ہے نہیں۔ ہر روز سننے میں آتا ہے کہ بیوروکریسی وزراء کو چلنے نہیں دے رہی۔بات تو سچ ہے لیکن اس سسٹم کو ٹھیک کس نے کرنا ہے ۔اگر یہی رونا ۔۔ رونا تھا تو آپ سے پہلے والے بہتر نہ تھے جو روتے تھے مگر شور تو نہیں کرتے تھے ۔ہاں مسئلہ یقیناًبڑا ہے کہ بیوروکریسی کام نہیں کرنے دیتی لیکن مسئلہ پہلے سمجھ تو لیں ۔یہاں ٹریلر کی صورت میں ابھی صرف ایک محکمے کا ذکر مقصود ہے۔ پی ایچ اے یعنی پارکس اینڈ ہارٹی کلچراتھارٹی پنجاب کی وزارت ہاوسنگ کے ماتحت ہے ، 1998 سے قومی خدمت کا جذبہ لئے قوم کی ’خدمت‘ بدرجہ اتم کی جارہی ہے۔۔ پی ایچ اے کا کام شہر کے پارکس کی دیکھ بھال اور دکانوں پر لگے بورڈز یا شاہراہوں پر لگے سائن بورڈز کی مد میں ٹیکس وصول کرنا ، اشتہارات کی مدت طے کرنا اور قومی خزانے کو جرمانے کی مد میں موصول ہونے والی رقم سے فائد ہ پہنچاناہے ۔اس ادارے کے کرپٹو کریٹس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں میاں محمودالرشید کی صورت میں انتہائی شریف النفس وزیرملے ہیں ۔ ویسے وزیر کوئی بھی ہوں کرپٹو کریٹس سب کو ماموں بنانے میں ماسٹر تصور کئے جاتے ہیں ۔ یہاں آپ کو پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی کی کارگزاریوں کا چھوٹا سا ٹریلر دکھانا مقصود ہے۔ کچھ سوالات تمام قارئین سے ۔۔ آپ کے اندازے کے مطابق پورے لاہور میں کل کتنی دکانیں ہوں گی جس پر تشہیری بورڈز آویزاں ہوں گے ؟ یقیناًگننا بھی چاہیں تو گن نہیں سکتے۔
ہر دکان سے تشہیری ٹیکس یا جرمانے کی مد میں کتنی رقم وصول کی جاتی ہوگی؟ اس کا ابھی اندازہ لگانا آسان نہیں ۔ بورڈز کا سائز یا برانڈ کا ہونا یا نہ ہونا کس فارمولے کے تحت دیکھا جاتا ہوگا یہ بھی بڑا سوال ہے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال کہ جمع شدہ رقم کسی کمرشل اکاونٹ میں جاتی ہے یا پی ایچ اے اکاونٹ میں ؟۔حضور والا ۔ یہ کرپٹو کریسی کا بڑا مافیا اور سالہا سال سے لوٹ مار کی زد میں نہ آنے والا گھناونا اسکینڈل ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پورے لاہور کی ’لاکھوں‘ دکانوں میں سے محض 565۔۔ جی ہاں صرف 565دکانوں کے اشتہاری بورڈز بشمول برانڈز سے ٹیکس کی مد میں کم وبیش گیارہ کروڑ روپے کی رقم وصول کی گئی ہے۔جس کی کل مالیت شہر بھر کی لاکھوں دکانوں سے ٹیکس کی مد میں وصول کی جانے والی رقم کا دس فیصد بھی نہیں ہے۔ بھیا باقی لاکھوں دکانوں کے بورڈز یا برانڈز کا کیا ہوا۔ اتنی بڑی رقم جا کہاں رہی ہے ۔اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا باقی سب دکانوں کو چھوٹ دے گئی یا ٹیکس سے مستثنی قرار دے دیا گیا ۔۔ جی نہیں ۔۔ یہی لوٹ مار کا اصل طریقہ واردات ہے ۔ انسپکٹر اور ڈائریکٹرز مل بانٹ کر کھا رہے ہیں ۔ جس سے لاکھ روپے وصول کرنا ہوتے ہیں اس سے پچیس ہزار وصول کرکے جان چھوڑ دی جاتی ہے ۔ اور معاملہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتا کیوں کہ پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اور کرپشن نہ پکڑی جائے اس غرض سے آڈٹ تک کو مینیج (manage)کیا جاتا ہے۔ سب بندر بانٹ سے چل رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ماہانہ دس کروڑ روپے کی بدعنوانی عمل میں آتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئی بھی دیانت دار ڈائریکٹر اس ادارے میں ٹک نہیں پاتا ۔ سالہا سال سے چند نام ہیں جو اس ادارے میں ادھر ادھر ٹرانسفر ہورہے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو ان کے دفتر جا کر پوسٹنگ بورڈ ملاحظہ کر لیجئے ۔ حد تو یہ ہے کہ جس کلاز کے تحت ٹیکس وصول کرنے یا نہ کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے اس سے بڑا فراڈ میں نے اپنے کرئیر میں نہیں دیکھا ، قانونی کلاز کے الفاظ ملاحظہ کیجئے
Shop Sign Fee : The fee of Shop signs with and brand will be levied and collected by the authority as prescribed from time to time to individual shopkeepers who have non branded one shop sign of “reasonable size” found at their shops will be exempted from the payment of advertisement fee.
اب آپ کو بتاتے ہیں کہ کرپشن ہو کیسے رہی ہے۔ اشتہاری بورڈ یا شاپ بورڈ کا مناسب سائز یاreasonable size ہی اصل معاملہ ہے جس کو طے کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ۔ اسی کو جواز بنا کر لاکھوں شاپس کو چھوٹ دی جاتی ہے اور چند فیصد رقم لے کر اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں ، اشتہاری بورڈ کو دوبارہ این او سی جاری کرنے کی مد میں پانچ سے سات لاکھ روپے الگ وصول کئے جاتے ہیں۔
اس سسٹم کو خان صاحب ٹھیک کرنے چلے ہیں۔۔ چلیں شوق پورا کرلیں لیکن سمجھ تو لیں کہ بندے یا چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا ، نظام اور قوانین میں تبدیلی لانا ہوگی ۔۔اب آپ سوچیں کہ اس مافیا سے پانچ سال کے لئے آنے والا وزیر کیسے ٹکر لے سکتا ہے ، یہ کرپٹو کریسی کا محض ٹریلر تھا ، اگلے کالم میں پی ایچ اے کے ڈی جی کی بڑی کرپشن کے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ حاضر ہوں گا تاکہ تبدیلی کے نعروں پر معرض وجود میں آنے والی حکومت کو اندازہ ہو کہ اصل تبدیلی کی کہاں ضرورت ہے۔
(جاری ہے)