جہیز ایک معاشرتی بیماری (نائلہ مشتاق ایڈوکیٹ)

جہیز ایک لعنت ہے یہ تو سبھی کہتے ہیں مگر میرے نزدیک یہ لعنت کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی بیماری بھی ہے جس نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا۔ جس طرح جسم میں کوئی زخم ناسور بن جاتا ہے تو جسم کے اس حصے کو تلف کر دیا جاتا ہے تاکہ انسان زندہ رہ سکے ٹھیک اسی طرح جہیز معاشرے کا ناسور بن چکا ہے معاشرتی زندگی کو بحال اور برقرار رکھنے کے لئے اس ناسور کو اپنے معاشرے سے ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ کئی سال گزر گئے ہیں برصغیر پاک وہند کو تقسیم ہوئے اسی طرح کئی سال گزر گئے ہیں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے مگر ہم فرسودہ رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انہی میں ایک رسم جہیز کی ہے اس لعنت کی وجہ سے کئی بہنیں اور بیٹیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ تمام والدین اپنی بچیوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں اگر خوشی سے جہیز کی بجائے جائیداد میں اس کو حصہ دیا جائے تو پیارے محبوب کے دین اسلام کی پیروی ہو گی اور اگر جہیز دینگے تو ہندوانہ رسم کی پیروی۔ آئے دن اخبارات میں خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ گینگ گرفتار ہوگیا جو کہ شادی کے بہانے نقدی سامان اور زیورات لے کر بھاگ گیا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سامان جہیز نہ لانے والی یا تھوڑا لانے والی لڑکیوں کو سسرال میں ہر وقت صلوٰاتیں سنائی جاتی ہیں اور اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے اس کا سسرال میں رہنا دو بھر کردیا جاتا ہے اور آخر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ کئی رشتے صرف اور صرف بننے سے پہلے ٹوٹ ہی اس لیے جاتے ہیں کہ لڑکے والے جہیز کی لمبی لسٹ لڑکی والوں کو تھما دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر ایسے لوگ، ایسے گھرانے ہیں جن میں ہر آسائش ہونے کے باوجود لڑکی کے جہیز پر نظر رکھی جاتی ہے اور بڑی بڑی فرمائش سے کی جاتی ہیں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی لڑکی کے والدین کا قرض اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ساری عمر سسرالیوں کے ہاتھوں اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لیے بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔ اس معاشرتی بیماری نے ہمارے خاندانوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ اسلام میں شریعت اور قانون کے مطابق تمام نان و نفقہ واخراجات ضروری سامان وغیرہ کا پابند صرف مرد کو بنایا گیا ہے۔ عورت کو کمتر سمجھنے والے غیرت مند اور عقل مند مرد کی غیرت کیسے گوارا کر لیتی ہے کہ وہ عورت کی لائی ہوئی چیزیں استعمال کرے اور فرمائش کرکے لڑکی والوں سے چیزیں لے جب کہ ایک شخص نے اپنی عزت آپ کو دے دی ہے اور تو کسی چیز کی لینے کی گنجائش ہی نہیں بنتی مگر ہمارے اس معاشرے میں ابھی ایسی سوچ رکھنے والوں کی شدید کمی ہے۔ لالچ نے اس معاشرے کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ آج ہماری عدالتیں خرچہ نان و نفقہ اور سامان جہیز کے دعوی جات سے بھری پڑی ہیں کیونکہ غیرت مند مرد یہ تو گوارا کرلیتے ہیں کہ اس کی بیوی اور بچے خرچہ نان و نفقہ وغیرہ کے لیے عدالتوں کے دھکے کھائیں مگر عزت سے گھر میں بٹھا کر اپنی بیوی بچوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ مرد حضرات کو چاہیے کہ بوقت شادی سامان جہیز لینے سے خود ہی انکار کردیں تاکہ معاشرے میں ایک اچھی روایت قائم ہو سکے۔ معاشرے ہم سے ہے اور ہم نے ہی اسکو بدلنا ہے۔ والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جو سوچ ان کی اپنی بیٹی کے لئے ہے وہی سوچ وہ دوسروں کی بیٹی کے لیے رکھے تو اس جیسے واقعات اور جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ والدین لڑکے کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہو اور اس کو کسی جہیز کی ضرورت تک محسوس نہ ہو۔ اگر والدین سامان جہیز وغیرہ دینے کی بجائے اپنی بیٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں اور جائیداد میں ان کو ان کا حق دیں اور اپنے پیروں پر کھڑا کریں تو اس بوسیدہ معاشرے کی چکی میں پسنے کی بجائے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکتی ہے اور اپنے بچوں اور خاندان کی خوشحالی کے لیے بہترین کردار ادا کر سکتی ہے اور اپنے علم و ہنر سے اپنی زندگی کو چار چاند لگا سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں