جہاں تیری یہ نظر ہے( ممتاز رضوی)

مغربی حسن پر مشرقی پہناووں نے چار چاند لگا دئیے ۔ شہر اقتدار کے سبزہ زاروں سے لے کر زندہ دلان شہر کی مسجدوں مینار سبحان اللّٰہ ، ماشاءاللہ کی صداؤں سے گونج اٹھے ۔ کسی نے مہتاب تو کسی نے رخ آفتاب قرار دیا ۔ ہر کوئی بڑھ بڑھ کر شہزادی کی بلائیں لے رہا تھا ۔ والہانہ مہمان نوازی کا برطانوی مہمانوں نے بھی بھرپور لطف آٹھایا۔ اس ساری آؤ بھگت کے دوران کچھ تیر انداز کمانیں تان چکے تھے ۔لہذا تیر تو چلنے تھے کہیں تو لگنے تھے ۔ شاہی جوڑا نہ سہی تو دیسی کڑیاں ہی سہی ۔
اکثر مقامات پر کیٹ مڈلٹن کو داد دینے والے قومی اداکاراؤں پر لعن طعن کرتے نظر آئے ۔ “ایک یہ ہیں جنہوں نے ہماری روایات کا پاس رکھا ۔ثقافت کو اپنایا ۔ سرسے آنچل ہٹنے نہ دیا ۔ شلوار قمیض بدن سے لپٹائے اور سینے سے سجائے رکھا ۔ اور انہیں دیکھو دوپٹہ کہاں غائب ہے کچھ پتہ نہیں ۔شلوار قیمض بھی غارت کربیٹھیں ۔ جینز پھانس لی ٹی شرٹ یا کرتی چڑھا لی” ۔وغیرہ وغیرہ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ بحث میں اس وقت اور شدت آئی جب ڈچز آف کیمبرج نے بادشاہی مسجد کی چوکھٹ عبور کی ۔
شہزادی کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کردئیے گئے ۔یار لوگوں کا بس نہ چلا کہ محترمہ کو بی حجن کا اعزازی لقب دیدیا جائے ۔ کیتھرین کو ملک بھر کی نسرینوں کیلئے مثال بنا کر پیش کیا گیا ۔کہ یہ دیکھو اسے کہتے ہیں شرم و حیا ۔ مسجد کے احترام میں دوپٹہ سر سے سرکنے دیا ۔ برہنہ پا چلی آئیں۔ تو حضور بادشاہی مسجد کوئی اداکارہ ہو یا فنکارہ۔۔ مسجد جائے گی تو سرڈھانپے گی ۔اکثر معروف فلمسٹارز گھروں میں میلاد النبی اور مجالس عزا کا اہتمام کرتی ہیں ۔ اس موقع پر کہیں گمان نہیں ہوتا کہ یہ خاتون بے پردہ ہو کر فلموں میں ٹھمکے لگاتی ہوگی ۔ شہزادی نے دوپٹہ لے کر احسان نہیں کیا بلکہ انسانیت کا درس دیا ۔ جس پر واہ واہ بنتی ہے ۔ یاد رہے کہ چند سال قبل دیوالی کی تقریب میں بلاول بھٹو کی شرکت پر کس طرح ناک بھنوئیں چڑھائی گئی تھیں ۔ لیکن مجال ہے جو کسی برطانوی پادری نے شہزادی شہزادے کے مسجد جانے پر آف بھی کیا ہو ۔
دیکھا جائے تو لباس اور انداز موقع محل کے حساب سے بالکل مناسب تھے ۔ لیکن لڑکیوں کو کیٹ میڈلٹن کی تقلید کا درس دینا درست نہیں ۔ کیونکہ لندن آمد پر شہزادی نے پھت اپنی تہذیب کو اپنا لیا ۔ شلوار کی جگہ اسکرٹ اور قمیض کی جگہ بلاؤز آگیا ۔ لیکن دائیں بازو والے بضد ہیں کہ پاکستانی لڑکیاں برطانوی شہزادی کو رول ماڈل بنائیں۔۔۔ مزید چند ہفتوں تک کیٹ کے کاندھوں پر بندوق رکھ کے پاکستانی نیوز اینکرز،سلیبرٹیز اور سماجی کارکنوں پر منہ کی فائرنگ جاری رہے گی ۔ اس ضمن میں کسی دلیل کے کارگر ہونے کا امکان نہیں۔ جو طبقہ سفر میں انہیں سادگی کی تاکید کررہا ہے رمضان میں اسی سادگی کا مذاق اڑاتا نظر آئے گا جب وہ پیکر شرم و حیا بن کرس کسی رمضان ٹرانسمشن کی میزبانی کررہی ہونگی ۔ کہا جائے گا کہ
نو سو چوہے کا کھا کر بلی حج کو چلی ہے ۔ منطق سے سوچیں تو جو دماغ میں ۔ میں کروں تو سالا کریکٹر ڈھیلا ہے بجنے لگے گا ۔
یوں لگتا ہے کہ دورے سے قبل ناقد تیار بیٹھے تھے ۔ برطانوی جوڑے کی زرا سی لاپرواہی بےحیائی کی ترویج اور کفر کا پرچار کے ںعرے لگوا سکتی تھی ۔ لیکن خیر لٹکتی تلوار نے کسی نہ کسی کا کام تمام تو کرنا تھا ۔جو ہوگیا ۔ اب ملک میں دائیں بازو کے دردمند سالہا سال کیٹ کی مثالیں دیتے رہیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں