لندن میں مقیم دوست سے احوال پتا چلا کہ اسے اور اس کے دو فیملی میمبرز کو، کورونا ہوگیا تھا۔ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ انہیں لگتا تھا کہ یہ کھانسی شاید اب کبھی نہیں رکے گی۔پھیپھڑوں کا حال یہ تھا کہ لگتا تھا کہ وہاں کوئی آکٹوپس گھس کر بیٹھ گیا ہے،سانس لینا ایک مشقت بھرا کام بن گیا تھا۔اس پر سانحہ یہ کہ لندن کے اسپتال والے ایسے مریضوں کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ ابھی صرف ان مریضوٓں کو ہی داخل کیا جارہا ہے جن کی حالت اس سے بھی ذیادہ خراب ہے، کیونکہ برطانیہ کے تمام اسپتالوں میں بیڈز اور وینٹی لیٹرز مریضوں سے بھرچکے ہیں۔برطانیہ جیسے اعلی نظام صحت کے حامل ملک کا نظام بھی مریضوں کی کثیر تعداد کے آگے فیل ہوچکا ہے۔
بہرحال وہ فیملی گھریلو ٹوٹکے ، خاص طور پر کلونجی کے استعمال کی بدولت کورونا کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئی۔انہوں نے کلونجی کی چائے بنا کر پی ۔ جبکہ کچھ لوگوں نے چٹکی بھر کلونجی چبا کر بھی کھائی۔زیتون کا تیل اور شہد بھی کام آیا۔
پاکستان میں بھی کورونا کی آمد کو شاید دو ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔لیکن تمام تر بداحتیاطی کے باوجود صورتحال سنگین تر ہوتی نظر نہیں آرہی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کیونکہ پاکستان میں ٹیسٹ نہیں ہورہے، اس لئے مریضوں کی اصل تعداد سامنے نہیں آرہی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیسٹ نہ ہونے سے مریض تو کم نہیں ہوجاتے؟ اور 15 روز بعد تو ٹیسٹ کرائے بغیر ہی کورونا کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اور اگلے 15 روز میں اموات شروع ہوجاتی ہیں۔ یہاں دو ماہ میں بھی ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی کی معمولی سی انگلی بھی کٹ جائے تو لوگ فیس بک پر تصویر ڈال کر دعا کیلئے کہہ دیتے ہیں۔لیکن ابھی تک کسی جاننے والےکی کورونا کے حوالے سے کوئی تصویر یا اسٹیٹس سامنے نہیں آیا، نہ ہی محلے میں کسی میں کورونا کی علامات کا ظہور ہوتے دیکھا۔
تاہم یہ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کورونا کی جتنی بھی خبریں اب تک آئی ہیں وہ جھوٹ ہیں۔ نہیں جناب وہ سچ ہیں،تاہم ان کی تعداد نہایت معمولی ہے۔
امریکا اور پاکستان نے کورونا کے ساتھ سفر تقریباً ایک ساتھ ہی شروع کیا۔امریکا میں اموات 50 ہزار ہوگئی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں اموات 250 ہیں۔۔
کچھ لوگ ماہ مئی کا نام لیکر لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کررہے ہیں۔کہ مئی میں کورونا تباہی مچا دے گا۔طبی ماہرین اس بات سے بالکل متفق نہیں کہ پاکستان میں کورونا کمزور ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کورونا پاکستان کا ہو یا امریکا کا۔ہلاکت خیزی میں وہ کسی طور بھی ایک دوسرے سے کم نہیں ۔
طبی ماہرین کی اس بات سے ہمیں بھی سو فیصداتفاق ہے۔لیکن سوال پھر ایک پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ہلاکتوں کی شرح خوفناک کیوں نہیں؟ ہمارے ہاں تو صحت کا نظام بھی اچھا نہیں؟ صفائی ستھرائی کا نظام بھی تباہ ہے۔ناقص غذاؤں کی بدولت امیون سسٹم بھی بہت اچھا نہ ہو شاید۔ جبکہ امریکا اور یورپ میں تو معاملہ اس کے قطعی برعکس ہے۔۔
دوستو : میرا یہ اپنا ذاتی خیال ہے، کہ ماہ مئی بھی ہمارے لئے بہت ذیادہ خوفناک ثابت نہیں ہوگا۔یہ بات ماہرین بھی جانتے ہوں گے،لیکن وہ منہ سے کہہ نہیں پارہے کیونکہ بادشاہ، اپنی سپاہ کو باغ سے ایک سیب توڑنے کی اجازت دے تو باغ ہی اجڑ جاتا ہے۔یہی حال ہماری قوم کا ہے۔اس حال میں بھی سینہ تان کر باہر نکل رہے ہیں، زرا سی شہہ اور ملی تو سوچیں کیا حال کریں گے۔
اورایک بات،جس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں۔احتیاط ، ڈر کی بدولت ہی پیدا ہوتی ہے،تھوڑا سا ڈرتے ڈراتے رہنا چاہیئے۔۔
(شعیب واجد)