قصور میں ایک گھر میں ایک اور شامِ غریباں برپا کر دی گئی۔آج ایک اور زینب کی عزت کو پاش پاش کردیا گیا۔
اس اندولناک واقعہ کو سفاکیت کا نام دینا بھی کم ہے، اردو لغت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو اس حیوانیت سوز المناک سانحہ پر ملامت کر سکے۔ آج تو فرشتے کیا ابلیس بھی انسان کی اس حیوانیت کو دیکھ کر رو پڑا ہوگا اور اس نے شکر ادا کیا ہوگا کہ رب نے اس انسان کا روپ نہیں دیا۔
زینب، تمہیں دیکھ کر مجھے اپنی بیٹی یاد آئی، جو تمہاری عمر کی ہی ہے۔ بالکل تم جیسی ہے۔ معصوم اور سچّی۔ مکروفریبِ زمانہ اور انسان کے درندہ صفت ہونے سے یکسر بے خبر۔
میں بھی دو بیٹیوں کا باپ ہوں اور جب شام کو گھر لوٹتا ہوں تو میری جاگیر دوڑی چلی آتی ہے۔ ننھے منّے ہاتھوں سے میرا چہرہ تھام کر پیار کرتی ہے اور دن بھر کی روداد اُسی وقت سنا دینا چاہتی ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتی کہ اُس کے بابا تھکے ہوئے ہیں، آرام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گود سے اترتی ہی نہیں اور مجھے اُس کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں سننے کے بعد وعدہ کرنا پڑتا ہے کہ اُنہیں پورا کروں گا۔ جاگیر تو اب چلنا دوڑنا سیکھی ہے اور میرے سینے کی ٹھنڈک اور دل کا چین ہے۔ زینب تم بھی اپنے امی ابو کا مان ہوگی انکے سینے کی ٹھنڈک اور دل کی دھڑکن ہوگی، تمہارے امی ابو اللہ کے حضور حاضری دینے گئے ہوئے ہیں اور تم نے ان کے جانے سے لیکر ان کے آنے تک فرنائشوں کے انبار لگا رکھے ہونگے کہ جب بابا اور اماں جان آئیں گے تو ان کے گلے لگ کر دل کی ساری باتیں بیان کروں گی اور اپنی تمام فرمائشیں منوائوں گی مگر تمہیں کیا خبر کہ اس سے پہلےہی یہ حیوان اپنی حوس مٹا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلادیں گے۔ زینب تم تو اس وقت بھی اپنے بابا اور امی سے دور تھی جب درندے تمہارے وجود کو نوچ نوچ کر اپنی ہوس مٹا رہے تھے اور کیا ہی عجیب لمحہ ہوگا کہ جب وہ سفاک و حیوان تمہاری زندگی چھین رہے تھے تو عین اُسی وقت تمہارے امی ابو یہ دعا کر رہے ہونگے کہ ” اے اللہ ہمارے پریوں جیسی زینب کو اپنے حفظ وامان میں رکھ ۔ انہیں کیا معلوم کہ اسلامی جمہوریہ کی سرزمین پر ظالم کس طرح ان کی ننھی پری کو نوچ رہے ہونگے۔
تمہیں کچرے کے ڈھیر پر بے حس و حرکت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے زینب۔ میری آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ جذبات اور احساسات کے اظہار کی کوئی شکل نہیں سوجھ رہی۔ کاش میں تمہاری آواز سُن لیتا۔ کاش کہیں سے میں تمہیں دیکھ لیتا اور اُس بھیڑیئے سے بچا پاتا۔ اب تو میں بس یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا غضب ہوگا کہ آسمان ہم پر ٹوٹ پڑے، پہاڑ ہم پر گریں اور ہم سب اُس کے بوجھ تلے کچلے جائیں۔
اتنا بڑا سانحہ ہوگیا اور یہ نظام، ریاست کے منتظم، آئین اور قانون کے رکھوالے، فکر و دانش کے متوالے سب کے سب نوحہ کناں ہیں، ماتم و گریہ کررہے ہیں، لیکن کیا اِس سے پہلے کوئی زینب ہوس اور سفاکی کا نشانہ نہیں بنی؟ کیا اِس سے پہلے کسی پھول کو بے رحمی سے نہیں نوچا گیا۔ کیا وہ واقعات جو اِس سے پہلے رونما ہوئے ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی تھے؟
ہم کب تک روئیں، یہ نوحہ گریہ کب تک؟ کبھی تہمینہ، کہیں کائنات تو کبھی کوئی اور بچہ۔ قصور کا جنسی ویڈیو اسکینڈل ہمارے اجتماعی احساس کو اب تک کچل رہا ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ پولیس کی پھرتیاں اور عدالتی کارروائیاں، میڈیا اور سماجی تنظیموں کا واویلا کچھ بھی تو کام نہیں آرہا۔
اب ہمیشہ کی طرح پھر سے یہ ہوگا کہ معصوم پھول کو منوں مٹی تلے دفن کر کے جب والدین گھر لوٹیں گے تو کل ہمارے بےحس حکمران ہمدردری کے دو بول بھونک کر تعزیت کریں گے ،سپریم کورٹ آف پاکستان سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے بڑے بڑے احکامات جاری کرے گی قاتل گرفتار ہونگے پھر ان کو شاید سزا بھی سنا دی جائے گی اور آگے چل کر کوئی صدرمملکت رحم کی اپیل مانتے ہوئے قاتلوں کی سزائیں معاف کر دے گا اور پھر ایک اور زینب کا جسم اسی طرح نوچا جائے گا اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک کہ ہم بیدار نہ ہوجائیں۔۔