مُصنف کی ذات سے جڑا ایک اہم پہلو (پرھ اعجاز)

مُصنف کی ذات کا ایک اہم پہلو اکثر کہا جاتا ہے کہ لکھاریوں کے پاس لفظوں سے کھیلنے کا ہنر ہوتاہے ،اور اُنہی لفظوں کی ہیر پھیر سے وہ اپنے پرستاروں کا دل جیت لیتے ہیں ۔کتنا آسان ہے نا لوگوں کے لیئے کسی کی تحریروں کو پڑھ کر ایک انسان کی شخصیت کو پرکھنا۔ میرے نزدیک دنیا میں پڑھنے والوں کی تین قسمیں ہیں، جن میں کچھ لوگ کتابیں اس لیئے پڑھتے ہیں کہ اُن کو ہر دن زندگی میں کچھ نیا سیکھنے کی چاہ ہوتی ہے ، علم حاصل کرنے کی لگن ،مقابلہ کی صِف میں آگے بڑھنے کے جذبے کی باعث وہ کتابوں سے دوستی کر لیتے ہیں،کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ،جو اپنی زندگی کی ذہنی اُلجھنوں کے باعث محض حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لیئے کتابوں سے دل لگا لیتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حقیقتاََ کسی مُصنف کے تدارک کو ،اُس کے نظریے کو سمجھنے کے لیئے کتابوں میں کھوجاتے ہیں۔
عموماََ لوگوں کے لیئے وہ تحریریں محض الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہیں جوفراغت کے کچھ پل میں اُن کو مسرت دیتی ہیں۔ درحقیقت ایک لکھاری کبھی ا پنی تحریر کے زریعے زندگی کے تلخ تجربات کی بناء پر اپنے خیالات کااظہار کرتا ہے ، تو کبھی سماجی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے، کبھی محبت کی حسین وادیوں کی سیر کرواتا ہے ، اور کئی بار تنہائی کے لمحات میں وہ دل سے نکلے ہوئے اپنے درد کو قلم بند کردیتاہے ۔ سچ ہے کہ ایک انسان اگر لکھاری بھی ہے تو وہ نہایت خوبصورتی سے اپنا حالِ دل بیاں کرنے کے مختلف زرائع ڈھونڈ لیتا ہے، کئی بار کسی کہانی کی صورت ، تو کبھی کسی اور کی زبانی ، کبھی سماجی مسائل کی آڑ میں اپنی آواز اعوام تک پہنچانے کے لیئے سنجیدہ موضوعات پر نشاندہی کرتا ہے ، تو کبھی انسانی حقوق کے لیئے آواز اُٹھاتا ہے، کبھی مزاحیہ انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتیں بیان کر جاتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ مزاح کے عنصرکو اپنے مضمون کا حصہ بنانے کا مقصد اپنے ہی ذہن کو کچھ پل کے لیئے ایک نئی سمت میں موڑنے کی چھوٹی سی کوشش ہوتی ہے۔غرض کہ وہ زندگی میں مختلف رنگ بھرنے کا بھی ہنر جانتا ہے۔
لیکن خود اُسکی زندگی بے رنگ ہوتی ہے ، یہ کوئی نہیں جانتا ۔ میرے نزدیک ایک مُصنف کی زندگی بہت کٹھن ہوتی ہے ، شائد اس لیئے کہ وہ ایک وقت میں دو کردار نبھا رہا ہوتا ہے ، کیوں کہ وہ پڑھنے والوں کو ہر بار نئے انداز میں اپنے خیالات سے متعا رف کروانا چاہتا ہے تاکہ لوگ علم سے صحیح معنوں میں دوستی کر سکیں اورانسانی زندگی سے جڑے تمام معاملات کو نت نئے انداز میں جان سکیں۔اس لیئے ایک لکھاری دن بہ دن اپنے پرستاروں کے لیئے کچھ منفرد کردکھانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس وہ اپنا زاتی کردار نبھاتے نبھاتے یکسانیت کا شکار ہوجاتا ہے ، جس میں لوگوں کے سامنے وہ حالات کے آگے خود کو مضبوط ثابت کر کے در حقیقت دوسروں کا سہارا بن رہا ہوتا ہے، تاکہ اُس کی ہار جیت کے سفر میں کوئی اور انسان ایسے حالات کا شکار نہ ہو، اس لیئے وہ اپنے پرستاروں کو ہر دن ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے ۔کبھی پریوں کے دیس ، تو کبھی محبت کا تصور ، کبھی علم و آگاہی دیتا ہے ، تو کبھی زندگی کے سفر میں آنسووٗں کے کڑوے گھونٹ پینے کی ہمت دلاتا ہے ۔
دراصل مُصنف کی زات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کئی بار ماہرین بھی کچھ لکھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں، زندگی کے تمام اُتار چڑھاوٗ کی وجہ سے ذہنی تھکن کبھی کبھارایک لکھاری پر بھی اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ وہ خود کوکسی بھی موضوع پر لکھنے کے قابل نہیں سمجھتا اور یوں وہ کچھ پل کے لیئے ہی صحیح ، مگر ایک عام انسان کی طرح جینے کی خواہش کرتا ہے ۔ یہ ایسی اُلجھن ہوتی ہے کہ مُصنف لکھنا بھی چاہے تو کبھی موزوں لفظ نہیں ملتے تو کبھی موضوع نہیں ملتا،یا پھر دل کے تار نہیں چھڑتے کہ ایک لکھاری اپنے آنسووٗں کو نئے طرز سے تحریر کرسکے ۔
ایسا ہی ہے ہماری زات کا یہ درد ناک پہلو ، جسے کوئی گہرائی میں سمجھے تو گویا جیسے دل کو چُھو لیا ہو، اور جسے لفظوں کے سمندر میں اُترنے کی چاہ ہی نہ ہو تو بھلا وہ کیا جانے اِ س بے بس دل کا حال ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں