دہشت گردی مزاکرات کے زریعے ختم کی جائے یا دہشت گردی ختم کرنے کے بعد مزاکرات شروع کئے جائیں؟ اول الذکر پاکستان کا موقف ہے اور دوئم الذکر بھارت کا مطالبہ ہے۔۔اورایک بار پھراسی مطالبے نےبنتا ہوا کھیل بگاڑدیا۔
معاملہ یہ ہے کہ بھارت نے اچانک نیویارک میں پاک بھارت وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کردی ہے۔۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تین بھارتی پولیس والوں کو اغوا کے بعد قتل کردیا گیا ہے۔اوراب شاہ محمود اور سشما سوراج کی ملاقات نہیں ہوسکتی کیونکہ بقول ان کے دہشتگردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔۔بھارتی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اس عمل سے عمران خان کا شیطانی چہرہ بے نقاب ہوگیا،مذاکرات کی پیشکش کے پیچھے پاکستان کا منفی ایجنڈا پوشیدہ تھا۔۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا ہے۔۔
زرا غور کیجئے کہ بھارت کے اس اقدام کے پیچھے دو باتیں بہت ہی حیران کن ہیں۔۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جو زبان استعمال کی ہے۔ وہ انتہائی حیرت انگیز اور غیر متوقع ہے۔وزیراعظم عمران خان کو شیطان کہنا ایک ایسی افسوسناک مثال ہے جو سفارتی کشیدگی کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ۔جبکہ بیان میں انہوں نے کئی دیگرغیرسفارتی الفاظ بھی استعمال کئے ہیں۔ان الفاظ سے کہیں بھی یہ نہیں لگتا کہ یہ دفتر خارجہ کی زبان ہے۔بلکہ یہ بھارت کی کسی انتہا پسند تنظیم کا بیان معلوم ہورہا ہے۔
دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کو بات چیت کی منسوخی کی بنیاد بنایا ہے،یہاں دل چسپ امر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تو آئے روز بھارتی فوجی ہلاک ہوتے رہتے ہیں،اور جھڑپوں میں ہر ہفتے درجنوں کشمیری بھی مارے جاتے ہیں،ایسے میں وہاں جاری لڑائی کے کسی ایک واقعے کو،یوں کشیدگی پیدا کرنے کی بنیاد بنا لینا واقعی حیرت انگیز ہے،اوراسےمزاکرات سے پیچھے ہٹنے کا بہانہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
لیکن بھارت کو اچانک اس بہانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا محض یہ ایک فضول فیصلہ ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی اور بھی وجہ ہے؟ ہوسکتا ہے حقائق جلد ہی سامنے آنا شروع ہوجائیں۔اس بارے میں سابق پاکستانی وزیرخارجہ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ بھارت نےحالیہ مذاکرات کا فیصلہ بڑی سوچ بچار کے بعد ہی کیا تھا۔ایسے میں ہوسکتا ہے کہ مزاکرات کے التوا کا فیصلہ بھارت کو کسی اندرونی دباؤکی بنا پرکرنا پڑا ہو۔
بھارت کے اس اچانک بیان کو سرحد کے دونوں جانب سے افسوس اور حیرانی سے سنا گیا۔بھارتی صحافی ونود شرما کا کہنا تھا کہ یہ ایک میکنزم سا بن چکا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو بنیاد بنا کر تعلقات میں پیش رفت کو بریک لگا دیا جاتا ہے، اس میکنزم کو بدلنا ہوگا۔
پاکستان اوربھارت اپنی اپنی جگہ دونوں ہی دہشت گردی کا شکار ہیں۔پاکستان دہشت گردی سے ذیادہ متاثرہےجہاں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات میں ایک لاکھ سے زائد جانیں جاچکی ہیں۔جبکہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کا سامنا ہے۔جس کی اخلاقی حمایت پاکستان ہمیشہ جاری رکھے گا۔تاہم بھارت میں دہشت گردی کے دیگرواقعات کی حمایت ہرگز نہیں کی جاسکتی۔۔اورپاکستان کی جانب سے بھی اس کی مذمت ریکارڈ کرائی جاتی رہی ہے۔
اس تمام صورتحال کا حل فی الحال یہی نظرآتا ہےکہ دونوں ممالک،چاہے کتنی ہی بدترین صورتحال سےدوچارہوں،مل کرہی بیٹھیں۔اوردونوں ملک ایک دوسرے کے جائزتحفظات کو سنیں،اورحل کی طرف بڑھیں۔۔بصورت دیگر کارروائی اورجوابی کارروائی کا سلسلہ کشیدگی ہی کو ہوا دیتا رہے گا۔۔
(شعیب واجد)