دن بھر وٹس ایپ دیکھنا نہیں ہوا۔شام کو دیکھا تو گروپ میں ایک تصویر پر نگاہ پڑی، تصویر ڈاؤن لوڈ کئے بغیر پہچان لیا کہ وہ تو ادریس خان صاحب کی تصویر تھی۔ نیچے ایک کیپشن میں ان کے انتقال کی خبر تھی،اوربعد نماز مغرب ان کی نماز جنازہ کی اطلاع تھی۔۔یہ پڑھ کردل ٹوٹ کر رہ گیا۔۔
ابھی میں نماز جنازہ میں شرکت کا سوچ ہی رہا تھا کہ وٹس ایپ پر ایک وائس کال آنا شروع ہوگئی۔دیکھا کہ ادریس خان کی تصویر ٓارہی تھی۔۔
ادریس خان کالنگ ۔۔۔۔
فون کی بیل بج رہی تھی اور میں حیرانی سے فون کو دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔۔
ادریس صاحب سے میرا ذیادہ رابطہ نہیں تھا، انھوں نے دو سال قبل نیوز ون جوائن کیا تھا، جہاں میں بھی نوکری کررہا تھا، اس کے ایک سال بعد وہ واپس جنگ چلے گئے، جس کے بعد ان سے ذیادہ رابطہ نہ رہا۔ جبکہ اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے بھی وہ ادارہ چھوڑ کر دوسری آرگنائزیشن جوائن کرلی۔ان سے رابطہ بس فارورڈ میسیجز تک محدود ہوگیا تھا۔
ایسے میں مرحوم کے نمبر سے آنے والی وٹس ایپ کال نے مجھے حیران کردیا۔۔
میں نے کال ریسیو کی تو ایک لڑکے کی آواز سنائی دی، اس نے کہا کہ میں ادریس صاحب کا بیٹا ولید بول رہا ہوں ، تھوڑی دیر بعد مغرب میں والد صاحب کی نماز جنازہ ہے اس لئے آپ کو اطلاع دے رہا ہوں ۔۔
میری زبان گنگ سی ہوچکی تھی، بچے سے ڈھنگ سے تعزیت بھی نہیں کرپا رہا تھا، بس تھوڑی ہی بات کرسکا۔۔ اورفون رکھ کر فوراً نماز جنازہ میں جانے کی تیاری شروع کردی۔
لیکن میں حیران تھا کہ ادریس صاحب کے بچے مجھے نہیں جانتے، پھر یہ خصوصی کال مجھے کیوں آئی؟
جلد ہی اس کی وجہ بھی سمجھ آگئی، میں نے کچھ دیر قبل ایک مضمون وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ پر پوسٹ کیا تھا، جس میں تمام کونٹیکٹس ایڈ ہیں۔ادریس صاحب کے موبائل پربھی وہ میسیج ریسیو ہوا ہوگا ، جس سے ان کے بچے نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ مجھے شاید اس سانحے کی خبر نہیں ہے۔
خیر میں مغرب سے کچھ دیر پہلے ہی نماز جنازہ کیلئے مسجد بیت المکرم گلشن اقبال پہنچ گیا۔ جہاں میں ان کے دو بیٹوں خصوصاً ولید سے ملا، جس نے مجھے کال کی تھی۔ دونوں بچے کم عمر ہیں، شاید سترہ اٹھارہ سال کے ہوں گے۔ان سے تعزیت کرتے ہوئے دل سے ان کے لئے بے حد دعائیں نکلیں۔
ادریس صاحب کو میں نے ایک سیدھا سچا اور شریف النفس انسان پایا ۔ایسا شخص جو اپنے کام کے دوران اپنی محنت میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دیتا، ساتھ ہی وہ ایک اچھے رفیق کا حق بھی ادا کررہا ہوتا تھا۔
وہ بھولا بھالا انسان بھی ان گمنام صحافیوں میں سے ایک تھا ، جو ٹی وی یا اخبار میں ٖڈیسک پر، یا یہ کہہ لیں کہ پس پردہ رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہیں۔۔یہ لوگ صحافتی اداروں کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں، لیکن یہ اور بات ہے کہ یہ بس گمنام ہی رہ جاتے ہیں۔
ادریس خان کی نماز جنازہ سے واپسی پر دل سچ مچ بوجھل تھا۔اور دل سے بس ایک ہی دعا نکل رہی تھی، خدا ان کی مغفرت کرے اور ان کے اہل خانہ پر اپنا پورا رحم ، کرم اور مدد فرمائے۔۔
(شعیب واجد)