اس علمی و ادبی حلقے کی تشکیل و تربیت میں آفاقی شہرت یافتہ فکشن رائٹر اور منفرد لب و لہجے کے شاعر زیب اذکار حسین،ڈاکٹر شاھد ضمیر،ریحانہ احسان،پروفیسر مجید رحمانی،شکیل وحید،اکرم کنجاہی،کامران مغل،اصف علی اصف،نغمانہ شیخ اور دیگر احباب کی باطنی سچائی اور قلبی لگن کارفرما ھے۔۔
بیرون ملک رہائش پذیر قابل رشک ادبی شخصیت نامور شاعر یشب تمنا کی سالانہ آمد بھی حلقہ اربابِ ذوق کو چار چاند لگانے کے مترادف تسلیم کی جاتی ھے۔۔
شہرہ آفاق شاعر و ادیب آفتاب مضطر،معروف صحافی شاعر، ادیب و نقاد خالد معین کی شرکت بھی حلقہ اربابِ ذوق کا حسن مانی جاتی ہے۔۔ان قابل تعریف شخصیات کی موجودگی نئے تخلیق کاروں کے لئے مثبت راہیں کھولتی رہی ہیں۔۔
یہاں یہ بتانا اشد ضروری ھے کہ اس حلقہ اربابِ ذوق کو بلند پروازی کیونکر مقدر ھوئی۔۔تو پھر خوب سمجھ لیجئے کہ۔۔جن علمی و ادبی درسگاہوں میں خلوص نیت اور اخلاص کے ساتھ نئے تخلیق کاروں کو درست سمت کا تعین کرنے میں مدد کی جاتی ھے تو پھر انکی ناموری اور نیک نامی کی راہ میں کچی پکی کوئی دیوار حائل نہیں ھو سکتی۔۔۔خیر۔۔۔
اب ھم بات کریں گے کہ اس حلقے کی غرض و غایت کیا ھے تو عرض کرتا ہوں۔۔۔اس ادبی حلقے میں فن پارے پیش کرنے کا مقصد اھل علم کی تجزیاتی و تنقیدی گفتگو سے اصلاح اور رہنمائی کشید کرنا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس حلقے کی خوبی بھی آپ حضرات کے گوش گزار کر دوں کہ یہاں تشریف فرما ھر مبصر و نقاد اپنے فن کی بلندیوں پر عزت و اجلال نظر آتا ہے اور ان قابل تقلید شخصیات کی نقد و نظر پر گرفت قابل رشک بھی ھے۔۔یعنی حلقہ اربابِ ذوق میں اھل ادب کے ذریعے پیش کردہ شاہکاروں کی نوک پلک سنواری جاتی ھے تاکہ تخلیق کار کے عزائم کو تقویت نصیب ہو۔۔
گزشتہ شب آرٹس کونسل کراچی میں حلقہ اربابِ ذوق کے زیر اہتمام تنقیدی نشست کا اہتمام کیا گیا جو علم و ادب کے شیدائیوں اور تشنہ لبوں کے لئے امرت ثابت ھوئی۔۔
تلاوت ۔۔جمیل ادیب سید دنیائے شعر و سخن کا قابل تعریف نام۔۔۔
صدارت۔۔میر احمد نوید ایک ایسے شاعر جو روایت کی زمین سے ابھر کر جدت کے آسمان پر جلوہ افروز ہیں۔۔
مہمان خصوصی۔۔رحمن نشاط ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں جنھیں افسانوں دنیا کا روشن چراغ مانا جاتا ھے۔۔
مہمان اعزازی۔۔ڈاکٹر شاھد ضمیر علم و ادب کا تابندہ ستارہ اور آپکے مزاج پر کیا لکھوں کہ چہرہ متبسم،لبوں پر حلاوت،جبیں پہ بکھرا وقار اور ھمہ وقت خوشگوار موڈ ملنے والوں کو پابند عقیدت کرتا ھے۔۔
نظم۔۔سید شائق شھاب نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر جو اپنی شعوری کاوشوں سے لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے انگلیاں خون جگر میں ڈبو کر اشعار کو عجیب نوع کا روپ عطا کرتا ھے۔۔
مضمون۔۔عفت نوید ایک ایسی افسانہ نگار جو استحصالی معاشرے کے مکروہ چہرے سے نقاب اتارنے کے لئے اپنے قلم کو بطور سیف استعمال کرتی ھے۔۔
سلام۔۔نوید احمد نوید نے عشق حسین میں ڈوب کر سلام پیش کیا جس کے ہر حرف سے حب حسین،عشق شھدائے کربلا کی مہک اٹھتی ہوئی محسوس ھوئی۔۔
نظامت۔۔نغمانہ شیخ ایک معروف افسانہ نگار جو انسان اور انسانیت کو اپنے ھر افسانے کا جز خاص بنا کر سحر کا حصار کھینچ دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے ھر افسانے کو عوامی توجہ حاصل رہی ھے۔۔
سیکریٹری۔۔زیب اذکار حسین جدید افسانے کا معزز و معتبر نام۔۔جنھیں آج استاد الاساتذہ ھونے کا شرف حاصل ہے۔۔
نظم پر گفتگو کرتے ہوئے جمیل ادیب سید نے کہا کہ بڑے کینوس کی بھرپور نظم ھے۔۔
زیب اذکار کے مطابق سید شائق شھاب نے نئے ذائقے کی نظم پیش کی ھے مگر تلفظ اور انداز بیاں پر توجہ بہت ضروری ھے۔۔۔البتہ نیا رنگ قابل تعریف ہے۔۔مضمون پر زیب اذکار نے کہا کہ عفت کی تحریر میں معاشرے کا مکروہ چہرہ اور اک کرب کا احساس نمایاں ھے۔۔اور کہا کہ نومولود بچوں کو پھینک کر جانے والوں پر نظر رکھنی ھو گی اور اصلاح معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ھو گا۔۔
کامران مغل نے شائق شھاب کی نظم کو سرہاتے ھوئے عمدہ کاوش قرار دیا اور مضمون پر کچھ یوں لب کشائی کی کہ مشرقی روایات اور مغربی روایات میں فرق ھے۔ھمارا مہذب بے حیائی کی اجازت نہیں دیتا۔۔ناجائز ذرائع سے پیدا ھونے والے بچے بے قصور ہیں مگر انکے پیدا کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔۔
رحمن نشاط نے کہا کہ مضمون میں افسانوی رنگ موجود ھے اور اس میں ھمارے معاشرے کی بدصورتی دکھائی گئی ھے۔۔نظم ایک اچھی کاوش ھے جس پر کافی گفتگو کی جا چکی ھے۔۔اور ایک اھم بات کہ نشست میں موجود ھر شخص پر لازم ہے کہ دوران گفتگو خلل نہ ڈالیں۔۔
صائمہ نفیس نے کہا کہ عفت کی تحریر نے دماغ پر دستک دی ھے۔۔ناجائز تعلقات رکھنا مذہبی اعتبار سے یقینا غلط ھے مگر بچے کو بے گناہ ہی مانا جائے اور اس کی پرورش کے لئے مثبت اقدامات پر غور کیا جائے۔۔
نفیس احمد خان کے مطابق بے راہ روی سے بچنا ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے۔۔
نظر فاطمی کے مطابق یہ مضمون ایدھی کے جھولے سے متعلق ھے۔۔انبیاء کے واقعات کو ایسی کہانیوں سے جوڑنا گمراہی ھے۔۔اسلام ھمیں مکمل ضابطہ حیات دیتا ھے اور شیطانی وسوسوں کے شکار لوگوں کی حوصلہ شکنی ھم پر لازم ھے۔۔اور سید شائق شھاب شعر و سخن کی دنیا میں اک خوشگوار اضافہ ھے اور آج انکی نظم نے بے حد متاثر کیا ھے۔۔
واحد رضی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ۔۔تخلیقات پر گفتگو ھونی چاھئے تاکہ سننے والوں کو خوبیوں اور خامیوں کا ادراک ھو سکے۔۔مضمون کا اسلوب مثالی ھے اور اس میں پیش کردہ مسائل کا سدباب کرنا ھم پر لازم ہے۔۔
محسن نقی نے اپنے مخصوص انداز تکلم سے بزم کو زعفران زار بنا دیا۔۔اور شائق شھاب کی نظم کو موت کا منظر پارٹ ٹو قرار دیا۔۔اور زندگی کے حقائق بیان کرنے پر صاحب کلام کو داد و تحسین سے نوازا۔۔
شاھد ضمیر نے کہا کہ حلقہ اربابِ ذوق میں سیکھنے کے بے شمار مواقع ہیں۔۔نظم کے حوالے سے شائق کو خوبصورت اضافہ قرار دیا اور انکی نظم کو شاندار کاوش قرار دیا۔۔مضمون میں پیغام قابل تعریف ہے اور اک نئی فکر اجاگر کرتا ھے۔۔
میر احمد نوید نے کہا کہ۔۔نظم کی بنت اچھی ھے۔۔اور مضمون خلوص نیت سے لکھا گیا ھے ان مسائل پر غور کرنا ھو گا۔۔اور مقررین پر لازم ھے کہ وہ صرف تخلیق پر بات کریں۔۔
تقریب کا حسن و زیبا بڑھانے کے لئے ادبی دنیا کے جو ستارے زمیں پر جلوہ گر نظر آئے ان میں چند نام درج ذیل ہیں۔۔
نظر فاطمی ۔۔۔محبت کا شاعر جو معاشرے میں پھیلی انارکی پر رنجیدہ دکھائی دیتا ہے اور جس کے قلم کا طلسم سر چڑھ کر بولتا ہے۔۔
فرحت اللہ قریشی۔۔۔ ادبی محافل کی شان اور علم کا بیکراں سمندر مانے جاتے ہیں۔۔
غلام علی وفا ۔۔۔آپکی شاعری کا لب و لہجہ ایک مطالعاتی فرد کا عکاس ھوا کرتا ھے اور جس کا ھر ھر حرف معنی خیز بھی مانا جاتا ھے۔۔
سخاوت علی ناز۔۔۔ ایک ایسا شاعر جس کے شعری محاسن میں بے حد متاثر کرنے والے انداز ہی انکی شائستگی کے غماز ہیں۔
صائمہ نفیس۔۔۔ روشن خیال افسانہ نگار مگر مشرقی روایات کا حسن انکی شخصیت کا خاصہ ہے۔۔
مطربہ شیخ۔۔۔ ستائش و ناموری کی پرواہ کئے بغیر اپنے قلم سے موتی بکھرتی اپنی منزل کی جانب چلی جا رہی ہے۔۔
شجاع الزماں۔۔۔ بے مثال شاعر اور کریم النفس انسان دوست اور جس کے اشعار ھر آنکھ کو چندھیا دینے کے وصف پر مامور ہیں۔۔
کامران مغل۔۔۔ زندگی کی صداقتوں اور راحتوں کی جستجو میں طویل سفر طے کرنے والا شعر و ادیب جو آج ادبی محافل کی جان ھے۔۔
واحد رضی۔۔۔ شہرکراچی کا وہ شاعر جس کے حروف شعری سانچوں میں یوں ڈھلتے ہیں جس طرح ندی کا پانی سبک خرامی سے بہتا ھوا اپنی منزل کو پہنچ جاتا ھے۔۔
محسن نقی۔۔۔ نامور مزاح نگار جو اصلاح معاشرے کے لئے اپنی قلم کو بے باکی سے استعمال کرتا ھے۔۔
نفیس احمد خان۔۔۔ علمی و ادبی خدمات میں سر فہرست اور سماجی کاموں میں اک سنگ میل ھے۔۔
خواجہ اعظم۔۔۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹو گرافر جن کی ھر تخلیق اپنی مثال آپ ھوا کرتی ہے۔۔
حمزہ علی دریا۔۔۔ نوجوان شاعر و ادیب جو اپنی علمی تشنگی کے سدباب کے لئے ادبی حلقوں میں اپنی شرکت کو حصول فیض کا ذریعہ سمجھتا ھے۔۔
آخر میں زیب اذکار حسین نے مہمانوں کی آمد پر اظہار تشکر کیا اور آئندہ پروگرام شرکت کی دعوت بھی دی۔
تنقیدی نشست کے اختتام پر جناب خالد دانش صاحب کی جانب سے شرکاء کو حلیم پیش کی گئی۔۔