تحریر: ہادیہ عبدالمالک۔
آج کل ایک پاکستانی ڈرامے کے بہت چرچے ہیں جس کو شائقین میں بہت پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور لوگوں کے تبصرے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ پوری عوام کے پاس اور کوٸی کام ہی نہیں ہے۔
کسی بھی ہاٹ ٹاپک کو دیکھ کر فلاسفر بننے والے خواتین و حضرات ایسے ایسے تبصرے لکھ رہے کہ اگر حقیقی مسائل پر لکھ لیں تو معاشرے میں سدھار آجائے۔بہت سے لوگوں کے مطابق اس ڈرامے میں ہماری معاشرے کی تلخ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جہاں دولت مند اولاد اور امیر بہو کے آگے ایک مڈل کلاس بہو کو ذرا برابر اہمیت نہیں دی جاتی اور پھر انجام میں والدین اسی اولاد کے پاس آتے جس کو دھتکار دیا جاتا ہے۔
اسی طرح بہت سے لوگوں کا تبصرہ آیا کہ ایک آئیڈیل بیوی اور ایک اچھا اور کئیرنگ شوہر کیسا ہونا چاہیے؟ میاں بیوی کے تعلق میں سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے؟وغیرہ وغیرہ۔۔کسی حد تک تو یہ بات قابل قبول ہے کہ ہمارے اردگرد ہونے والے سماجی رویئے کی کسی حد تک عکاسی کی گئی ہے اور اسی طرح باقی بہت سے ڈراموں میں بھی مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل کے ایشو کو اٹھایا جاتا ہے اور ماضی میں بھی ایسے بہت سے ڈرامے دکھائے جاچکے ہیں جن میں واقعی کوئی میسج دیا جارہا ہوتا ہے اور جن کو دیکھ کر یہ احساس بھی ہوا کہ عشق و عاشقی کے علاوہ اور بھی بہت سے دکھڑے اس دنیا میں موجود ہیں۔۔لیکن ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی یہ سوچ رکھنا کہ ڈراموں سے سے یہ سیکھنا چاہیے،ایسے ڈرامے مزید بننے چاہیے یا پھر پھر اپنی زندگی کو ڈراموں سے جوڑ مسائل کا حل تلاش کرنا میرے نزدیک انتہائی بےوقوفی کی بات ہے۔
آپ کی زندگی اور ڈرامے میں پیش کی جانے والی زندگی بالکل مختلف ہیں۔آپ ٹہری ایک عام انسان جو دنیا کے دکھوں کی ماری ہیں اور وہ ہیروئین جس کو آنسو بہانے کے بھی لاکھوں مل رہے ہوں ایک جیسے کیسے ہوسکتے؟۔دوسری بات کہ معاشرتی اقدار،اخلاقی اور سماجی رویہ اور تعلقات کی بہتری کے لے صرف ڈرامے ہی بچے ہیں؟ آپس کے باہمی تعلق میں بہتری کیسے لائی جائے اور ایک پرفیکٹ فیملی کس طرح تعمیر کی جائے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں فلاں ڈرامہ دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں کام کرنے والے اپنی حقیقی زندگیوں میں خود بکھرے ہوئے ہوتے ہیں؟
ڈرامے میں بےشک اچھا پیغام دیا جارہا ہو لیکن اسی ڈرامے میں ایک نامحرم مرد اور عورت آمنے سامنے آگئی،ایک دوسرے سے اظہار محبت کرتے،ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے اور گلے لگتے تو کیسے یہ ڈرامے اچھے اور مثبت کہلائے جاسکتے جہاں کھلم کھلا ہی اللہ کے احکام کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوں؟۔ میسج تو آخر میں دیا جاتا ہے شروعات تو زیادہ تر عشق عاشقی اور وہی گھسے پٹے جھگڑوں سے ہوتی ہے جس کو دیکھ کر انسان مزید ڈپریشن کا شکار ہوجائے۔
اس لیے خدارا ان ڈراموں کے ذریعے اپنی زندگی کو بہتر بنانے یا تعلقات کی چاشنی بڑھانے کے بجائے جو اصل راہ نمائی کا ذریعہ ہے اس سے نکات لے کر اپنی زندگی کی کہانی کو خوبصورت بنائیں