فرینڈز ناٹ ماسٹر سےفرینڈز ناٹ ڈرائیور تک

اگر ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ دیکھیں تو دیگر حکومتی اداروں کی طرح ہمیں اس میں بھی کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دیتی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مثال ایک ایسے بحری جہاز کے مانند ہے جو لہروں کے رحم و کرم پر ہے, لہریں جہاں چاہیں اسے لے جائیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اگر ہم جائزہ لیں تو پاکستان جب سے معرضے وجود میں آیا ہے تو اسی وقت سے تقریباؑ دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوگیا تھا اور جنگ کے خاتمے پر جنگ میں شامل دو بڑے اتحادیوں میں جب مفادات کا ٹکراؤ ہوا تو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جرمنی کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا, مشرقی جرمنی روس اور مغربی جرمنی امریکا کے تسلط میں آ گیا۔جرمنی کی تقسیم کیساتھ یوروپ بھی دو حصّوں میں بٹ گیا, مشرقی یوروپ روس اور مغربی یوروپ امریکا کا ہم نوا ہوگیا اور یہی وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہو چلا تھا۔وارساہ پیکٹ اور نیٹو جیسے عالمی معاہدوں کی وجہ سے پوری دنیا دو حصّوں میں تقسیم ہو چکی تھی یہی وہ وقت تھا جب پاکستان ایک نئی مملکت کے طور پر وجود میں آیا تھا- اسی وقت دنیا وجود میں آنے والی ان دونوں طاقتوں کی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کو دعوت دی گئی کہ پاکستان کو بھی امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے آفر موصول ہوئی- پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کے دورے کی دعوت قبول کرلی اور اس وقت سے ہم امریکہ کی دوستی کو بھگت رہے ہیں جبکہ پاکستان کے بجانے ہندوستان نے روس کا انتخاب کیا- تاریخ نے ثابت کیا کہ پاکستان کا وہ فیصلہ غلط تھا, پاکستان امریکہ کیساتھ سیٹو سینٹو یعنی ابخداد پیکٹ اور باہمی تعاون کے معاہدے میں اتحادی رہا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا اور وقت پڑنے پر کبھی ایک سچے اتحادی کی طرح ساتھ نہیں دیا اور ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا یہ عالم رہا ہے کہ ہم ہر بار بہت ہی آسانی سے استعمال ہو جاتے ہیں اس کے برعکس ہندوستان نے روس کا اتحادی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا, 1965 کی جنگ کے بعد ہونے والا تاشقند معاہدہ ہندوستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی ایک واضح مثال ہے۔ امریکہ کے اسی مفاد پرستانہ کردار کا ذکر پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی مشہور کتاب (فرینڈز ناٹ ماسٹر) میں تفصیل سے کیا ہے۔ اسے ہم کوئی بھی نام دیں چاہے کسی پر بھی اس ناکامی کا ملبہ ڈالیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ دشمن اپنی سازش میں کامیاب ہوا اور پاکستان کو دولخت کر گیا- پاکستان کی سابقہ حکومتیں بھی خارجہ محاذ پر کوئی قابل قدر کارنامے سر انجام نہیں دے سکیں اور سونے پہ سہاگا موجودہ حکومت نے تو سابقہ حکومتوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں- موجودہ حکومت نے باقی شعبوں میں جس طرح صرف باتوں کی حد تک کارکردگی دکھائی ہے اسی طرح خارجہ محاذ پر بھی اس حکومت نے بہت بڑے بڑے کارنامے سرانجام دہئے ہیں اس حکومت نے خارجہ امور میں ایک نئے کام کو متعارف کرایا ہے-فروری 2019 میں جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے تو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ان کو اپنی طرف سے بہت بڑا اعزاز دینے کی خاطر ان کی گاڑی خود ڈرائیو کی اور اس پر بڑی واہ واہ کی گئی اور اس خبر کو ہیڈلائنز پہ اس طرح نشر کیا گیا جس طرح اقوام متحدہ سے ان کے خطاب کو کوریج دی گئی جبکہ ان کے خطاب کا کوئی فائدہ پاکستان کو نہ پہنچا اور نہ ہی آئندہ مستقبل قریب میں کوئی بہتری کی کرن دکھائی دیتی ہے-اسی طرح وزیراعظم کی سعودی ولی عہد کی کار چلانے کو بھی میڈیا پہ بڑھا چڑھا کر نشر کیا گیا کہ جیسے انہوں پھر سے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ اس کے بعد حالیہ دنوں میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی دو روزہ دورے پر جب پاکستان تشریف لائے تو اس بار بھی ان کی گاڑی کو ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے ڈرائیو کر کے ایک اور ریکارڈ قائم کرنے کی کو شش کی اور یہ جتایا گیا کہ ترکی کو بھی پاکستان اپنا بہت قریبی دوست سمجھتا ہے اور ان کے صدر کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ ان کی گاڑی بھی 92 کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان اور موجودہ وزیراعظم پاکستان نے خود ڈرائیو کی ہے ۔بہت اچھی بات ہے کہ کسی مہمان ملک کےصدر کو عزت دی جائے لیکن ایسا کرنے سے یہ سمجھ لینا کہ کسی مہمان سربراہ مملکت کی گاڑی ہمارے وزیراعظم نے ڈرائیو کرلی تو اب ان سے ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہو گئے ہیں تو یہ بہت بڑی حماقت ہوگی اور جب تعلقات مضبوط کرنے کا موقح ملے تب تو آپ رنگین قسم کے بہانے تراشنے لگ جاتے ہیں, ساری دنیا نے دیکھا کہ جب آپ کو ملائیشیا میں کانفرنس کی دعوت دی گئی تو آپ کس وجہ سے نہیں گئے یہ دنیا کے بچے بچے کو محلوم ہے اور بعد میں ان کی کار چلا کر آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ نے خارجہ محاذ پر بہت بڑا کوہ ہمالیہ سر کر لیا ہے تو یہ آپکی بڑی بھول ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر ملک اپنے سفارت خانے میں ہائی کمشنر کی جگہ ایک چیف ڈرائیور کا تقرر کرتا کہ اس طرح سے تعلقات مضبوط ہو جائیں گے, اب ایسا کرنے اور سمجھنے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جس طرح جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب کا عنوان دیا تھا (فرینڈز ناٹ ماسٹر) اسی طرح ان میں سے کوہی سربراہ مملکت بھی ہمارے اس رویے پر اپنے ملک میں جا کر کوئی کتاب نہ لکھ دے جسکا عنوان ہوگا (فرینڈز ناٹ ڈرائیور ) اب مجھے انتظار ہے کہ یہ سعادت کون حاصل کرتا ہے میرے ساتھ پوری قوم انتظار فرما ہے کہ جلد ہی ہم ایک اور کامیابی سفارتی محاذ پر کسی اور ملک کے سربراہ کی گاڑی چلا کر حاصل کر لیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا باقی رہ گیا مسئلہ کشمیر یا سفارتی سطح پر اور بہت سے مسائل ہیں وہ بھی خود ہی حل ہو جائیں گے- قوم بس ہماری آنیاں جانیاں اور گاڑیاں چلانیاں دیکھے اور واہ واہ کرے بس باقی حقیقت میں گراؤنڈ پہ کچھ ہونا ہے اور نہ ہی کرنا ہے-
(مرزا شجاع بيگ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں