ان سے پوچھا پٹرول کیوں مہنگا کیا؟
بولے،عالمی مارکیٹ میں مہنگا جوہوگیا۔
ہم نے کہا،مہنگا نہ کرتے تو کیا جاتا؟
بولے،آئی ایم ایف سےمعاہدہ جوکرچکے ہیں۔
کہا،معاہدہ نہ کرتے تو کیا تھا؟
بولے،ملک کے اخراجات کیلئےرقم کہاں سے آتی؟
کہا،ضیا دور تک بھی توپٹرول پرسبسڈی دیتے تھےاب کیوں نہیں؟
بولے،ضیا کے بعد آنے والوں نےفری مارکیٹ کی پالیسی جواپنائی۔
کہا،ضیا کے بعد تو کئی حکومتیں آئیں؟
بولے،معاشی پالیسیاں توسب کی ایک تھیں نا۔
کہا،معاشی پالیسیاں ایک تھیں تو ان سب میں فرق کیا رہا؟
بولے،کوئی نہیں۔
کہا،اب ان مسائل کا حل کیا ہوگا؟
بولے،مزید قرضے؟
کہا،اس کے بعد؟
بولے،مزید قرضے۔
کہا،بھٹو اورضیا دورمیں ہم قرضے کیوں نہیں لیتے تھے؟
بولے،اس وقت ہم کنٹرولڈ اکانومی پرعمل پیرا جو تھے۔
کہا،پھر تو کنٹرولڈ اکانومی ایک اچھا نظام ہوا نا ؟
بولے،ہاں ۔۔لیکن بھٹو اورضیا کے وارثوں کو یہ نظام فرسودہ لگتا تھا۔
کہا،لیکن انہوں نے اب جس سرمایہ دارانہ نظام میں ملک کوپھنسا دیا ہے،اس سے فائدہ کیا حاصل ہوا؟
بولے، حاصل صرف مہنگائی،روپے کی قدرمیں کمی،مزدور کوزیادہ محنت پرمجبوری،بے سکونی اورافراتفری ہوئی۔۔
کہا،تو پھر اُن کا وژن کیا ہوا؟
بولے،وژن ان کا ہوتا ہے، جن کا اپنا کوئی نظریہ ہو۔
کہا،اب کیا ہوگا۔۔؟
بولے،کچھ نہیں۔۔
کہا،یہ ملک کیسے چلے گا؟
بولے،بائیس کروڑ عوام ہیں نا۔۔
کہا،کیا مطلب؟
بولے،ٹیکس لگتے رہیں گےکام چلتا رہے گا۔۔
کہا،کیا عوام صرف ٹیکس بھرنے کیلئے کماتے رہیں گے؟
بولے،ہاں ۔۔بیرونی قرضے بھی آپ کی ذمہ داری ہیں۔۔۔
کہا،ہیں ں ں !!!! ہم کھوتے ہیں کیا؟
بولے،نہیں ۔۔تم سوتے ہو۔۔اور سوتے رہو۔۔
(ختم شد)
(شعیب واجد)