فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق وزارت دفاع اپنی نظرثانی درخواست پر مزید کاروائی نہیں چاہتی۔ آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔
حکمنامے کے مطابق درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی جبکہ درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر4 پر اعتراض اٹھایا۔ دوران سماعت کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے۔
دوران سماعت سوال اٹھایا گیا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیس کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں۔ کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے۔ نظرثانی درخواستیں واپس لینے کے لیے ایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں۔ کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا؟
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت نے ان کا نکتہ نظر کو مدنظر نہیں رکھا۔ فیض آباد دھرنا فیصلے کے پیراگراف 17 کے تحت یہ مؤقف عدالت کے لیے حیران کن ہے۔
تحریری حکمنامے کے مطابق عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری طور پر اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے۔ عدالت ایک اور موقع دیتی ہے کوئی بھی شخص حقائق منظر عام پر لانا چاہے تو اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کرے۔ کوئی بھی فریق یا کوئی اور شخص اپنا جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا دے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کے لیے اس کے دائرہ اختیار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیس کی آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔