ڈراما ارطغرل غازی اور اس کے اثرات

آشر ہاتھ میں تلوار پکڑے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے والد کے پاس آیا اور اپنی تلوار بلند کرتے ہوئے جوش سے بولا۔ ” بابا میں ارطغرل غازی بنوں گا۔”
چار سالہ ننھے آشر کی بلاکس سے بنی ننھی تلوار دیکھ کر اور معصوم خواہش سن کر اس کے والد مسکرا دیے۔ مستقبل کے اس ارطغرل کو لگتا ہے کہ ماضی کا یہ ہیرو ایک اچھا انسان ہے جو برے لوگوں کو اپنی تلوار سے مار کر برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اسے اپنا ہیرو مان کر ابھی سے اس جیسا بننے کی ٹھان لی ہے۔ ایک چار سالہ بچے کے لئے اچھائی اور برائی میں فرق کرنا اور اس بنیاد پر کسی کو پسند یا نا پسند کرنا تھوڑا مشکل کام ہے لیکن آشر کی خواہش سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ بچے کی ذہنی نشوونما میں ارد گرد کا ماحول اور میڈیا کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
ارطغرل غازی کی مقبولیت کا یہ واحد قصہ نہیں ہے۔ ارطغرل غازی ترکی کے ماضی کے ہیرو پر مبنی ایک تاریخی ڈرامہ ہے جسے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم صاحب کی ہدایت پر نیشنل چینل پر نشر کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ترکی میں بننے والا کوئی ڈرامہ پاکستان میں نشر اور پسند کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ترکی کے کئی ڈرامے اپنے دلکش مناظر اور جاذب نظر اداکاروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں حتیٰ کہ جب ہر طرف “عشق ممنوع” اور “کوسوم سلطان” کے ڈنکے بجنے لگے تو پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کے نامور فنکاروں نے اپنی کم ہوتی مقبولیت کو بحال کرنے کی غرض سے ان ڈراموں کی مخالفت کی اور ان پر پابندی لگا کر قومی انڈسٹری کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا۔ ارطغرل غازی اپنی منفرد کہانی کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں اور بچوں میں بھی یکساں مقبول ہے۔ کہانی اور کرداروں کے علاوہ اس مقبولیت کی ایک وجہ لاک ڈاؤن بھی ہے جس کی وجہ سے اس ڈرامے کو نہ صرف ٹیلی ویژن بلکہ یو ٹیوب پر بھی بار بار دیکھا گیا۔
ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی میں جس طرح سے اسلامی روایات اور اسلام کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ ہماری نئی نسل کی ذہنی نشونما اور مضبوط کردار کی تعمیر میں نہائت ہی مددگار ہیں۔ اسلام کے علاوہ اس ڈرامہ میں ترکی کی روایات کو بھی لوگوں کے سامنے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی ملک کی روایات کو زندہ رکھنے اور نئی نسل تک پہنچانے میں میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے مختلف نجی چینلز سے نشر ہونے والے ڈرامے کسی اور ہی تہذیب کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ڈراموں پر غور کریں تو آپ کو گھریلو سیاست اور بے راہ روی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ نت نئے فیشن کا پرچار کرتے ہوئے یہ ڈرامے خاص طور پر مارننگ شوز لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی بجائے انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل نہ صرف اپنی روایات سے نا واقف ہے بلکہ مختلف کلچرز میں پھنس کر اپنا کلچر بھی بھول چکی ہے۔ آج کے بچے اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دیکھیں گے مستقبل میں اس کوہی اپنائیں گے۔ جب ارطغرل غازی جیسے ہیروز کو رول ماڈل مانا جائے گا تو کل ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں ہمارے مذہب اور ثقافت کی جھلک نظر آئے گی اس کے برعکس جب کرپٹ لوگوں کو ہیرو بنا بنا کر میڈیا پر پیش کیا جائے گا تو پھر ہمارا کل آج سے یقیناً بد تر ہو گا۔
(تحریر:مونا سہیل)


(ماسٹر عاشر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں