پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرانے سے متعلق فیصلہ محفوظ

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرانے سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ 2019ء کی آئینی ترمیم درست نہیں کیونکہ کونسل موجود نہیں تھی، الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ 20 دن میں الیکشن کرائیں، ہم نے آپ کے آرڈر کے تحت الیکشن کرائے، چیئرمین کا عہدہ 5 سال اور پینل کا 3 سال کا الیکشن ہوتا ہے، جہاں بلا مقابلہ الیکشن ہوتا ہے وہاں ووٹنگ کی ضرورت نہیں، عام انتخابات بھی بلا مقابلہ ہوتے ہیں، بلا مقابلہ الیکشن غیر قانونی نہیں، اس کے لیے ووٹنگ کی ضرورت نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا طریقہ کار پاکستان کے آئین، الیکشن ایکٹ اور الیکشن رولز میں درج نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا طریقہ کار پی ٹی آئی کے آئین میں بھی درج نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا معاملہ پارٹی پر چھوڑا گیا ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسے کھلا نہیں چھوڑا گیا، کہا گیا ہے کہ انٹر پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق کرائیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ انٹر پارٹی الیکشن خود کرائیں، ہمارے آئین میں صرف یہ ہے کہ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو، ہر جماعت کے پاس آپشن ہے یا ایڈہاک کریں یا رولز بنا لیں، انٹرا پارٹی الیکشن میں ای سی پی ریگولیٹر نہیں ہے، ای سی پی الیکشن ٹریبونل نہیں جس کے پاس الیکشن کا تنازع نہیں لا سکتے، کسی بھی جماعت کے آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن کا طریقہ کار نہیں ہے، الیکشن ایکٹ انٹرا پارٹی الیکشن اور ممبر شپ کی بات کرتا ہے، ہر کوئی پارٹی ممبر نہیں، ووٹر، سپورٹر اور ممبر میں فرق ہے، ممبر وہ ہے جو پارٹی میں شمولیت اختیار کرے اسے ممبر شپ کارڈ دیا جاتا ہے، ممبر کا نام ریکارڈ میں شامل کیا جاتا ہے، کوئی کہے کہ میں ممبر ہوں اور میری درخواست سنیں تو آپ کہتے ہیں کہ آپ کا ممبر شپ کارڈ کہاں ہے؟ الیکٹرول کالج ممبر ہے۔

ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ الیکشن پر کوئی ناراض ہو، کوئی پارٹی کا ممبر نہ ہو تو وہ شکایت نہیں کر سکتا؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے جو پارٹی کا قانونی ممبر نہ ہو وہ اعتراض نہیں کر سکتا۔

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ ممبر پارٹی کی فیس، عطیات دیتا ہے، فیس نہیں دے گا تو ممبر نہیں ہو گا، جماعت کسی ممبر کو نکال سکتی ہے، نکالے گئے ممبر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں، اسے اعتراض ہو تو کورٹ جا سکتا ہے، درخواست گزاروں نے ایک معاملہ نہیں اٹھایا تھا لیکن بینچ نے اٹھایا، بینچ نے آبزرویشن دی، پارٹی چیف الیکشن کمشنر پارٹی آئین سے تعنیات نہیں ہوا، پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے 6 ہفتے ہوتے ہیں، آپ نے کہا کونسل موجود نہیں وہ ترمیم نہیں کر سکتی، آپ نے حکم دیا 20 دن میں الیکشن کرانا ہے اس لیے طریقہ کار فالو نہیں ہو سکتا، ایسے میں کیا پارٹی الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل نہ کرے اور کہا ہم نہیں کرا سکتے، ہمارے رول میں ہے کہ سیٹ خالی ہو اور وقت کم ہو تو سیکریٹری جنرل چیف الیکشن کمشنر نوٹیفائی کرتا ہے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ یہ نظریۂ ضرورت کے تحت ہوا، اعلان سے کوئی چیئرمین بن سکتا ہے؟ ہم نے جو آرڈر دیا تو اس میں چیئرمین اور سیکریٹری جنرل نہیں رہے، آپ کے عہدے دار ختم ہو گئے، اس عبوری دور میں کون چیئرمین تھے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ قانون کے تحت پرانے چیئرمین ہی رہیں گے، ابھی صدرِ مملکت کی مدت ختم ہوئی لیکن آئین کے تحت وہ ابھی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کے تحت جہاں سیاسی جماعت الیکشن کرانے میں ناکام ہو تو الیکشن کمیشن شوکاز دے گا، پارٹی کو جرمانہ ہو گا، سیاسی جماعت اپنے سربراہ کی طرف سے پارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کراتی ہے، اگر کوئی پارٹی سربراہ سرٹیفکیٹ نہیں دیتا تو اسے آپ شوکاز دیں گے، پارٹی الیکشن 2 دسمبر کو آئین کے تحت ہوا، الیکشن کی تاریخ کا 29 نومبر کو اعلان کیا گیا، تاثر دیا جا رہا تھا ہم نے خفیہ الیکشن کرایا۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ الیکشن کہاں ہو رہے ہیں یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کی تفصیلات میڈیا میں چھپی، میں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ہفتے کو انٹرا پارٹی الیکشن کرا رہے ہیں، ضرورت نہیں تھی لیکن ہم نے پھر بھی الیکشن شیڈول سب آفسز کے باہر لگا دیا۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ سارے ملک کے الیکشن پشاور میں ہوئے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر پارٹی کا الیکشن ایک ہی جگہ ہوتا ہے، پی ٹی آئی الیکشن شیڈول میڈیا میں آیا، نومبر 30 کو الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کر دیا کہ ہمیں پولنگ کے دن سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ نے دلائل میں اب تک کہا ہے کہ جو ممبر نہیں تو وہ پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، آپ نے بتایا کہ آپ کا پارٹی الیکشن مقابلہ کا نہیں، بلا مقابلہ تھا، آپ نے کہا کہ آئین میں نہیں لکھا کہ الیکشن کیسے کرائیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال ہونی تھی، چیئرمین اور پینل کے کاغذاتِ نامزدگی دائر ہونے کی خبریں بھی شائع ہوئیں، یہ بھی شائع ہوا کہ پی ٹی آئی پارٹی الیکشن پشاور میں ہوں گے، کاغذات کی جانچ پڑتال پر پتہ چل گیا کہ الیکشن بلامقابلہ ہے، پھر بھی ہم الیکشن کے دن پشاور میں وینیو پر گئے، الیکشن جہاں ہونا تھا وہاں 5 سو لوگ تھے جنہوں نے قرار داد منظور کی کہ الیکشن بلامقابلہ ہوئے، ہمارے ممبر الیکشن کمیشن میں نہیں آئے کہ الیکشن درست نہیں ہوا، ہمارے 8 لاکھ سے زائد ووٹرز ہیں جن میں سے 6 لاکھ مقامی اور باقی سمندر پار ہیں، ہمارے ووٹرز میں سے کوئی الیکشن کمیشن نہیں آیا، ہماری ممبرز کی تفصیلات انٹر نیٹ پر ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ تو جلسے بھی نیٹ پر رکھتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر کے ریمارکس پر الیکشن کمیشن میں قہقہے لگ گئے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کا بھی آپ کچھ کریں، الیکشن شیڈول بتا دیا، کاغذاتِ نامزدگی آپ کو دے دیں گے، ہم نے آپ کو الیکشن کی ساری تفصیلات دیں، اس عمل کے دوران کسی نے کاغذاتِ نامزدگی نہیں لیے، کسی نے پارٹی چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ نہیں کیا، ہم نہیں کہہ سکتے کہ آؤ آ کر الیکشن لڑو، یہ الیکشن لڑنا رضاکارانہ ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے پارٹی ہیڈ نے پارٹی الیکشن سرٹیفیکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا جس میں بلامقابلہ الیکشن لکھا ہوا ہے، اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ ہر جماعت کو پارٹی الیکشن کرانے کا کہیں، ان کی استدعا ہے کہ سب جماعتیں پارٹی الیکشن کرائیں، ایک درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کے مقام کا نہیں پتہ چلا، اس کا جواب ہے کہ ووٹنگ تو ہوئی ہی نہیں، درخواست گزار بلال نے کہا کہ وہ سیکریٹری جنرل کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، مگر بلال صاحب ممبر نہیں ہیں، درخواست گزار طالب نے کہا کہ چیئرمین ٹھیک ہے لیکن میں جنرل سیکریٹری بننا چاہتا تھا، درخواستوں کو مسترد کیا جائے۔

درخواست گزار کے وکیل عزیز الدین کاکاخیل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کوئی الیکشن نہیں ہوا، صرف سیلیکشن ہوا ہے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست گزار جہانگیر خان اور شاہ فہد کے وکیل نے کہا کہ چیلنج کرتا ہوں مجھ سے پہلے کوئی اس جماعت میں آیا ہو، میرے درخواست گزار کی ممبر شپ سماعت سے ایک دن قبل ختم کی گئی، جہانگیر خان پر 9 مئی کی ایف آئی آر ہے، شاہ فہد اڈیالہ جیل میں بھی رہے، ان کا جرم پی ٹی آئی کا کارکن ہونا تھا جس حق سے اب ان کی جماعت انہیں محروم کر رہی ہے، بلا مقابلہ الیکشن کو قبول نہیں کیا جا سکتا، ان کو شیڈول میں پینل کو دعوت دینی چاہیے تھی۔

الیکشن کمیشن میں درخواست گزاروں کے جواب الجواب مکمل ہوگئے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹر اپارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا، ہم نے پی ٹی آئی کو 7 دسمبر کو سوال بھیجے، انہوں نے 8 کے جواب دیے، ہم نے اس پر پی ٹی آئی کو مزید 32 سوالات دیے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کیا ایسے سوالات الیکشن کمیشن نے اور جماعتوں سے بھی کیے، اتنی سخت اسکروٹنی کر رہے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سوالات کی کاپی پی ٹی آئی کو دے دیں۔

الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت کل دو بجے تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں