معاشی ڈائیلاگ کی ضرورت (شعیب واجد)

اپ کو یاد ہوگا کہ گیلانی دور میں جب چینی کا بحران پیدا ہوا تو چینی 45 سے 55 روپے تک جاپہنچی تھی، ایسے میں ہمارے معاشرے کے ایک کردار ، یعنی میڈیا ، نے اس قدر شور مچایا کہ عدالت عظمی جوش میں آگئی، یعنی ازخود نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی۔افتخار چوہدری کی عدالت نے طلب اور رسد کے فارمولے کو نظر انداز کرتے ہوئے حکم صادر کیا کہ عوام کو چینی ہر حال میں 45 روپے کلو فراہم کی جائے۔حکم تو آگیا،لیکن اس پر عمل کیسے ہو؟ یہ سوچنا عدالتوں کا کام کہاں ہوتا ہے۔ پھر ہوا یوں کہ شوگر ملز مالکان نے سوچا کہ بلاوجہ عبدالستار ایدھی بننے سے بہتر ہے کہ فی الحال کام ہی نہ کیا جائے، یوں مارکیٹ میں چینی کی سپلائی شارٹ ہوگئی،وہ چینی جو 55 روپے کے مہنگے ریٹ پر مل رہی تھی وہ 65/60 تک جاپہنچی ، بلکہ کئی علاقوں میں تو ناپید ہی ہوگئی۔ کچھ دن بعد عدالتیں کسی اور معاملے پر لگ گئیں، میڈیا کو بھی کوئی نیا اشو ہاتھ آگیا، اور رہی بات چینی کے ریٹ کی ، وہ نیچے نہیں آسکا ۔۔
حالیہ چینی کا بحران بھی کچھ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے تو شوگر ملز مالکان کو حکومتی کارروائی سے بچنے کیلئے اسٹے دیا۔ پھر طلب اور رسد کے توازن کو نظر انداز کرتے ہوئے چینی ، جو 85 تک پہنچ گئی تھی ، اسے 70 روپے کلو میں بیچنے کا حکم دیا۔ اس معاملے میں بھی میڈیا کا کردار بی جمالو کا ہی رہا، مسئلہ کے اسباب اور اس کے حل کے بجائے ، سیاسی انداز سے ڈھول پیٹا جاتا رہا ۔ نتیجہ وہی نکلا کہ مارکیٹ میں چینی آج 85 کے بجائے 100 110/تک جاپہنچی۔ اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس معاملے میں حکومتی ناہلی اور لاپرواہی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔خاص طور پر طلب اور رسد پر نظر رکھنے والے اداروں اور متعلقہ وزارتیں بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہیں ، یہی معاملہ آٹے کے بحران میں بھی نظر آیا، یہ دونوں بحران تاحال جاری ہیں۔
ملک میں مہنگائی اس وقت اس سطح پر ہے، جو اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی تھی۔اور مہنگائی کے نتیجے میں جو سماجی مسائل اور جرائم پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اس سطح پر ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھے نہ گئے تھے۔
یہ فطری بات ہے کہ جو حکومت برسر اقتدار ہوتی ہے، وہی صورت حال پر جواب دہ ہوتی ہے۔موجودہ حکومت اپنے پہلے دو سال میں ، اس تمام ترصورتحال پر ایک ہی جواب دیتی آئی ہے کہ یہ سب پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے،ہم اسے ٹھیک کرنے میں لگے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
یہاں ہمیں ایک بات کا بہت اچھی طرح تجربہ ہوچکا ہے، کہ پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت کے دور کی صورتحال عوام کیلئے پچھلی حکومتوں سے بدتر ثابت ہوتی ہے۔اسی بات کو اگر فارمولا مان لیا جائے تو ، اگر موجودہ اپوزیشن کے حوالے حکومت کردی جائے تو یقیناً پھر صورتحال مزید بدترین ہوجائے گی۔
بات اصل میں یہ نہیں ،کچھ اور بھی ہے۔کچھ سامنے کے معاملات ایسے بھی ہیں جن پر ہم غور ہی نہیں کرتے،یہ وہ معاملات ہیں جن کی نتائج کے مضمرات بھی کسی حاکم وقت کے سرتھونپ دیئے جاتے ہیں۔یعنی عدالتوں کی دخل اندازی، میڈیا کا بچگانہ انداز،تاجروں کی بے حسی اور قانون کی عدم حکمرانی۔
ان سب باتوں کے باوجود، اب ہم آتے ہیں اصل معاملے کی طرف جس پر کوئی سیاسی جماعت ، حکومت یا ادارہ بات کرتا نظر ہی نہیں آتا۔ اور وہ ہے ہمارا نظام معیشت۔یعنی وہ بنیاد جس پر معیشت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں (تمام) سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ ہیں، شاید یہ بات انہیں خود بھی پتا نہ ہو، کیونکہ ان کا کوئی معاشی نظریہ ہی نہیں ہے۔سب سے پہلے بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے معاشی نظریئے کو کِک لگائی ، اور سوچے سمجھے بغیر امریکا ، یورپ اور آزاد معیشت کے سنگ چلنے کا نعرہ لگایا، اس کے بعد نواز شریف نے بے نظیر کو چلتا کرایا لیکن اسی کے معاشی نظریئے کو بھی آگے بڑھایا۔یعنی آزاد معیشت اور مارکیٹ اکانومی ۔اور یہ سلسلہ آج تک بلا تعطل جاری ہے۔
ہمارے دانشور اور میڈیا لوگوں کو بتاتے ہی نہیں کہ ہم کہاں کہاں سائن کرکے اپنا دامن پھنسا چکے ہیں۔امریکا ، یورپ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، ایف اے ٹی ایف ہمیں ڈانٹ کر ایک رستے پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔
خیر عرض یہ کرنا ہے کہ یہ بجلی، گیس ، آٹا اور چینی کی مہنگائی تو ضمنی معاملات ہیں اصل مسئلہ تو قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی ترتیب کا ہے۔ہمارے خزانے میں اگر دو چار ارب ڈالر مزید آگئے تو ان اشیا کی قیمتیں معمولی سی نیچے تو آسکتی ہیں، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، کیونکہ بحیثیت ریاست ہمارا کسی معاملے پر کوئی کنٹرول ہی باقی نہیں رہا ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ بھی شمالی کوریا بن جائیں اور دنیا سے بالکل قطع تعلق کرلیں ، لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ ملک بھی دنیا کی پابندیوں کے باوجود اپنی انٹرنل اکانومی بنا کر عوام کو روٹی ، تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہم سے بہتر فراہم کررہا ہے، خزانے کا خالی ہونا ان کے لئے مسئلہ نہیں،کیونکہ مہنگائی کا وہاں کوئی وجود نہیں،کیونکہ ہر چیز کےریٹ وہاں حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ حکومتی سختی اور کنٹرول کی بنا پر عوام وہاں تعیشات کی دوڑ سے دور رہتے ہیں ، چمچماتی کاریں ، ٹی وی چینلز ، اور جدید موبائل فونز بھلے ان لوگوں کے پاس نہ ہوں ، لیکن ان کی ضرورتیں ، وہاں ضرور پوری ہوتی ہیں ،وہاں لوگ ان حالات میں بھی شام کو بے فکری سے محفلیں سجاتے ہیں،ایک کماتا ہے اور پورا کنبہ کھاتا ہے۔ ایک زمانے میں (سن 90 سے پہلے تک)ایسا ہی دور ہمارے ہاں بھی تھا،جسے ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔
عرض یہی کرنا تھا کہ ملک میں، معاشی پالیسیوں پر بھی ڈائیلاگ شروع کیا جائے، صرف کارخانوں کی بے حساب پیداوار اور اشیائے تعیشات کی بھر مار کو اقتصادی ترقی نہ سمجھا جائے۔بلکہ ملک کی معاشی خودمختاری کو ہی سب سے اہم مانا جائے۔
حکومت ، سیاسی جماعتیں ، عدلیہ اور فوج معاشی ماہرین کے ہمراہ مل کر بیٹھیں ، سب سے پہلے تو ’’معاشی ترقی‘‘ کی تعریف پر متفق ہوا جائے ۔پھر اس امر کا تعین کریں کہ معاشی پالیسی کے بنیادی ستون کیا ہونے چاہیئں اور کون سا ادارہ ان کا محافظ ہو۔تاکہ ملک میں ایک بار پھر اسی بے فکری کا دور دورہ ہو ، جب ایک کماتا اور پورا کنبہ کھاتا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں