پاکستان کے نوادرات، فنون لطیفہ اور بیش قیمت ثقافتی ورثے میں
چولستان کی تہذیب و تمدن، آثار قدیمہ اور کھنڈرات ایک اہم مقام کے
حامل ہیں۔ زمانہ قدیم میں چولستان کی آب و ہوا اب سے بالکل مختلف
تھی۔ چولستان میں کبھی دریائے ہاکڑہ ٹھاٹھیں مارا کرتا تھا۔ جو اب
خشک کھدی ہوئی پگڈنڈی کی شکل میں موجود ہے اس کے دونوں
اطراف کچی پکی اینٹوں کے تقریباً40 قلعوں کے کھنڈرات ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دریائے ہاکڑہ ہندوستان کے دریائے گھاگھرا کی ایک
شاخ ہے اس وجہ سے ویدک آریائوں کے نزدیک یہ دریا سرسوتی
ندی کی طرح مقدس ہے غالباً ایک ہزار قبل ازمسیح میں دریائے
ہاکڑہ کا پانی گنگا اور جمنا میں شامل ہو کر اپنے پیچھے خشک
زمین چھوڑ گیا۔ البتہ دریائے گھاگھرا جنوب مغرب کی طرف بہتا
رہا اور بیکانیر، جلسمیر کی ریاستوں کے ساتھ ساتھ صحرائے
تھرکے مغربی حصوں سے بہتا ہوا سمندر میں جا گرا۔اس قدیم
دریا کے کناروں کے ساتھ ساتھ آج سے پچاس سال پہلے تک
چار ہزار سے زیادہ قدیم عمارتوں کے باقی ماندہ حصے موجود
تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ہزار قبل ازمسیح سے
اسلامی دور کے آغاز تک یہاں تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی
کیسی کیسی کہانی محفوظ ہے۔
دریائے ہاکڑہ کے خشک راستے کے ساتھ ساتھ قلعوں کی قطار
اس کہانی کا آخری حصہ معلوم ہوتی ہے غالباً مسلمانوں نے اپنے
دور حکومت میں ارد گرد خون خوار ہمسایوں سے حفاظت کے
خیال سے دفاعی لائن قائم کی۔ صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی
علاقے میں بہاولپور کا انتظامی ڈویژن ہے یہ بہاولپور، بہاول نگر
اور رحیم یارخان تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ جس کا کل رقبہ 25617
مربع کلو میٹر ہے کم و بیش نصف رقبہ صحرا پر مشتمل ہے
جسے ’’چولستان‘‘ کہتے ہیں لیکن یہ علاقہ چولستان سے زیادہ ’’روہی‘‘ کے
نام سے مشہور ہے اس علاقے کو مٹھن شریف کے روحانی صوفی شاعر
خواجہ غلام فرید نے اپنے کلام کے ذریعے لافانی بنا دیا ہے۔ اس علاقے
میں خانہ بدوش قبیلے رہتے ہیں جن کی تمام تر دولت ان کی بکریاں،
اونٹ اور بھیڑیں ہوتی ہیں یہاں پانی نایاب ہے اور بارش کبھی کبھار
ہی ہوتی ہے۔ اس بارش کے پانی کو چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں جمع
کر لیا جاتا ہے۔ جنہیں ٹوبہ کہا جاتا ہے یہاں کی آب و ہوا میں رہنا
نہایت مشکل ہے لیکن یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ مشکل مسکن
ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ اپنے ماحول سے بہت پیار کرتے
ہیں اس صحرا کی تہذیب بڑی پرانی ہے اور اس کی اپنی ایک
رومان بھری ثقافت ہے جس میں بہادروں کے رزمیہ گیت بڑی ہی
اہمیت رکھتے ہیں۔
قلعہ دراوڑ
چولستان میں پائی جانے والی تاریخ اور طرز تعمیر کے آثار پاکستان کی
نایاب آرٹ اور ثقافت میں سنہرے باب کی حیثیت رکھتے ہیں زمانہ قدیم کے
چولستان کی آب و ہوا آج کے چولستان کی آب و ہوا سے بڑی مختلف ہے۔
چولستان میں پائے جانے والی عمارتوں میں دراوڑ کا قلعہ سب سے زیادہ
متاثر کرتا ہے کہ جیسے ریت کے سمندر میں ایک تباہ کن بحری جہاز
لنگر انداز ہے 18 ویں صدی بعدازمسیح کے اوائل میں فوجی طرز تعمیر
کا بنایا گیا یہ قلعہ اب بھی بڑی اچھی حالت میں محفوظ ہے یہ اب بھی
بہاولپور کے نوابوں کے قبضے میں ہے جنہوں نے اپنے آپ کو اس
علاقے میں قائم رکھا ہوا ہے۔ قلعہ دراوڑ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ
اس کی بنیادیں اسلام سے قبل بنائے جانے والے قلعے کی بنیادوں پر
رکھی گئی ہیں بعض روایات کے مطابق اسے بھاٹی یا بھاٹیہ نے تعمیر
کیا تھا جس کا نام ڈیرہ سڈھ تھا اسے دیوراول بھی کہا جاتا ہے اس قلعے
کا نام درحقیقت اس کے نام پر دیوراول رکھا گیا تھا لیکن بعدازاں اسے
دراوڑ کہا جانے لگا۔
قلعہ دراوڑ کی اولین تاریخ کیا ہے اس کے متعلق ہمیں زیادہ معلومات نہیں ہیں
البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ کیسے بہاولپور کے نواب محمد خان اول
نے1733ء بعد از مسیح میں دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔ چھ سال بعد نادر شاہ
نے نواب کے خطاب سے نوازا اور سندھ کا وسیع و عریض علاقہ انہیں
عطاء کیا جس میں موجودہ شکار پور، لاڑ کانہ، سیوستان اور چہاہ ٹھیار
کے علاقے شامل تھے دراوڑ کا علاقہ ان تمام علاقوں کے علاوہ عطاء
کیا گیا تھا۔ دوسرے نواب محمد بہاول خان کے دور میں راول رائے سنگھ
نے 1747ء بعداز مسیح میں اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ کم و بیش تیسرے
نواب مبارک خان کے دور میں اسے رضا کارانہ طور پر اس شرط پر
واپس کر دیا گیا کہ اس قلعہ کی آمدنی کا نصف انہیں ادا کیا جائے گا۔
بہاولپور کا علاقہ اور قلعہ دراوڑ تیمور شاہ نے 1788ء میں اپنے
قبضے میں لے لیا اور اسے تھوڑے عرصے کے لیے شاہ محمد خان
کی نگرانی میں دیدیا لیکن جلد ہی چوتھے نواب محمد بہاول خان دوئم
نے ان دونوں علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔18 ویں صدی کے
آخری راج میں دراوڑ کا علاقہ بہاولپور سٹیٹ کے سابق حاکموں کے
کنٹرول میں تھا۔