ڈھول کا پول (محمد شعیب یار خان)

گزشتہ دس سال میں پاکستان کے عوام کو دو نعروں نے بہت تکلیف دی ہے۔ایک نعرہ لگا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔اس کا انتقام عوام نے خوب سہا۔دوسرا نعرہ لگا کہ۔۔میں انہیں رلاؤں گا۔۔۔واقعی یہ نعرہ بھی عوام کے لئے اب تک کسی ڈراؤنے خواب جیسا ہی محسوس ہورہا ہے۔نئی حکومت میں پٹرول کی قیمتیں بڑھیں،گیس کی قیمتیں کئی گنا بڑھیں،بجلی کی نہ صرف قیمتیں بڑھیں بلکہ موسم سرما کے دوران ملک بھر میں لوڈشیڈنگ بھی ہونا شروع ہوگئی جس سے یہ سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ گرمیوں میں کیا حال ہوگا۔
پھر اشیائےخرونوش کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا کیونکہ محترم ڈالر کی قدر میں تقریبا چالیس روپے تک کا اضافہ ہوا جو غریب کے گھر دو وقت کی روٹی کا حصول مزید مشکل بنانے کی وجہ بناپھراس سال حج پر سے سبسٹڈی بھی ختم کردی گئی کیونکہ بتایا گیا کہ حج صرف صاحب حیثیت پر جائز ہے اور سبسڈی دینے سے شرعی استطاعت حج میں فرق واقع ہو جاتا ہے ۔
اس منطق کی بنیاد ہر تو کئی دہائیوں سے سرکاری حج پر جانے والے حاجیوں کے حج پر سوال اٹھ سکتا ہے کہ وہ حج جائز تھے یا۔۔۔۔اللہ رحم کرے ۔ جبکہ میں انہیں رلاؤں گا ۔ کہ تناظر میں دوست مملک سے ملنے والے قرضے اور ان پر ادا ہونے والا سود ایک طرف تو دوسری طرف پرانے قرضوں میں بھی مزید کئی گنا اضافہ بھی بالآخر عوام کو ہی جھیلنا ہے ۔سانحہ ساہیوال پر بھی سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہ ہوا متاثرین عدالتی کمیشن کا مطالبہ کررہے ہیں اور وزراصاحبان صرف انصاف کے دعوؤں پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں۔۔درج بالا سب تکالیف، مصیبتوں اور مہنگائی کے متاثرین مملکت خداداد کے مظلوم جمہوریت پسند عوام ہی ہیں جن کو ریلیف دینے کے وعدے پر یہ نیا پاکستان وجود میں آیا۔۔
اب وزیراعظم صاحب نے آئی ایم ایف سے مزید قرضے کی درخواست بہ نفس نفیس بھی کردی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیکس دہندہ عوام کی جھکی ہوئی کمر پر مزید بوجھ ڈال دیا جائے گا ۔
موجودہ حکومت کا یہ بھی ایک خاص سیاسی حربہ ہی ہے کہ مخالفین پر اس قدر الزام لگاؤ کہ اپنی کارکردگی کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ جائے۔ ہر کسی کو چور ڈاکو کہہ دو پھر وہ اپنی صداقت ثابت کرتا رہے اور حکومتی وزرا مشیران،ہمدرد ان الزامات کے پیچھے چھپ کر اپنی خراب کارکردگی کا ملبہ گزشتہ حکمرانوں پر ڈال کر عوام کے سامنے اظہار افسوس کر تے کرتے دن گزار دیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟میاں نواز اور شہباز شریف سمیت خواجہ برادران ہوں یا حنیف عباسی اور دیگر اپوزیشن اراکین سب کو جیل گئے عرصہ ہوگیا مگر سوائے این آر او کی خبروں کے ان سے کچھ وصول نہ ہوا۔آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر راہنماؤں پر اومنی گروپ اور منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم ہیں مگر یہاں بھی زبانی مخالفت کے علاوہ کوئی عملی قدم نظر نہیں آتا ۔قوم کے سامنے دن رات یہ گردان کرتے رہنا کہ فلاں بھی چور ہے فلاں بھی چور ہے حکومتوں کا کام نہیں ہوتا ۔ حکومت کا کام ہے کہ اپنے اختیارات کا درست اور شفاف استعمال کرتے ہوئے عوام کی رقم واپس لائی جائے ۔
خدشہ یہ ہے کہ جتنی این آر او کی باتیں اور ڈیل یا ڈھیل کے تذکرے ہورہے ہیں کہیں واقعی ایسا ہو نہ جائے ۔کیونکہ اس حکومت کےلیے اپنے کہے سے مکرنے کو عظیم قومی مفادمیں یو ٹرن کا نام دیکر کر گزرنا معمول ہوتا جارہا ہے۔۔اپوزیشن سے الجھنے کے علاوہ موجودہ حکومت جن اتحادیوں کی بیساکھی پر کھڑی ہے اب انکو رام کرنا بھی ان کے لئےمشکل ہوتاجارہاہے الیکشن سے قبل جنہیں ڈاکو کہا جاتا تھا ان کو پنجاب کی اسپیکر شپ کے ساتھ مزید وفاقی وزارتوں سے نواز کر اتحاد کو برقرار رکھا جارہا ہے۔صدر ہوں گورنر ہوں وزرائے اعلیٰ ہوں یا وفاقی اور صوبائی وزرا ۔ سب کے پروٹوکول اور شاہ خرچیاں پرانے پاکستان جیسے ہی ہیں ۔سادگی کےوعدوں اور میرٹ کے دعوؤں پر عوام نے کپتان کو چنا اور ایک کھلاڑی سے ملک کا وزیراعظم بنا دیا اس امید پر کہ واقعی اب اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا اور جو سہانے خواب کپتان نے دکھائے تھے وہ شرمندہ تعبیر ہو سکیں گے ۔مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام میں شدید بے چینی اور مایوسی عام نظر آتی ہے۔حکومتی وزرا کا پچھلی حکومتوں کو ہر وقت کوسنا بھی اب عوامی سطح پر غیر مقبول ہوتا جارہاہے ۔یہ بھی تبدیلی سرکار کا ہی کارنامہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی شرح پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق فروری کے پہلے ہفتے کے دوران مارکیٹ میں ٹماٹر، آلو، پیاز، چینی، گوشت، دال چنا اور گندم سمیت بارہ اشیا کی قیمت میں پچیس فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔مڈل کلاس کے لیے مہنگائی کی اوسط شرح تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام کا صبر اور حکومتی عذر کب تک چلتے ہیں۔۔کیا واقعی اس نئے پاکستان میں حکمران، پرانے پاکستانیوں کی ریلیف کے لئے روزگار کے وسائل مہیا کر سکیں گے ؟ مہنگائی کے سونامی کے آگےجلد بند باندھ سکیں گے؟ یا پاکستانی اب پھر جمہوریت کے انتقام کا نشانہ بنیں گے ۔ یا پھر اس دوسرے نعرے ۔ میں انہیں رلاؤں گا ۔ کے مصداق رونے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ یقینا اس نعرے کی عملی تفسیر تو عوام ہی بنیں گے کیونکہ کپتان صاحب نے جن کے لیے یہ جملہ کہا تھا وہ تو خان صاحب کی اس طرز حکمرانی پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہونگے۔..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں