جمہوریت اور احتسابی عمل (توفیق وسان)

دنیا بھر کے تمام ممالک میں اداروں کی مضبوطی کے لیے احتساب کا عمل انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ احتساب کے عمل کو موئثر بنانے کے لیے مختلف قوانین بنائے جاتے ہیں جن کی روشنی میں بدعنوانیوں اور کرپٹ عناصر کو بے نقاب کرنے کے ساتھ مختلف سزائیں دے کر مستقبل کے لیے مثالیں قائم کی جاتی ہیں تاکہ کسی ادارے یا فرد کو بدعنوانی یا کرپشن کرنے کی ہمت نہ ہوسکے
پاکستان میں احتساب کا عمل اکثر اوقات سیاسی جوڑ توڑ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے اور مارشل لاء کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ھے یے ہی وجہ ھے کے سیاسی جماعتوں کی وہ صلاحیت نہیں ھے جو کسی جمہوری نظام میں ہونی چاہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں یے اس ملک کی بدقسمتی ھے کے 70 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود غیر جمہوری قوتیں جب چاہیں تمام آسانی سے اقتدار پر قابض ہو سکتی ہیں اور پہر احتساب کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ھے۔
پاکستان میں احتساب کی شروعات پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوتی ھے جنہوں نے 1949ع میں Public and Representative Office Disqualification Act (PRODA) کا قانون متعارف کروانے کے بعد اسیمبلی سے منظور کروایا اور سب سے پہلے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ایوب کھوڑو کے خلاف 2 مرتبہ کارروائی ہوئی. نتیجتاً ایوب کہڑو کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا لیکن دونوں مرتبہ وہ حسب دستورعدالت سے دوبارہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بحال ہوگئے۔ ایوب کھوڑو کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب ذوالفقار علی محمدوٹ کے خلاف بھی کارراوئی ہوئی. یہ دونوں وزرائے اعلیٰ مسلم لیگی رہنما تھے جن کو مسلم لیگی وزیراعظم احتساب کے دائرے میں‌لایا.
آگے چل کر 1954میں اس قانون کو منظور کرنے والی اسمبلی نے ہی منسوخ کر دیا.بعد ازاں‌ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہو کر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اور ایک نئے نام Elective Bodies Disqualification Order (EBDO) سے احتسابی عمل کا آغاز کیا ,اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے حسین شہید سہروردی (جنہوں نے 1946ع میں پاکستان کے حق میں قرارداد دہلی منظور کی تھی) کو بھی نااہل کروایا گیا اس کے علاوہ کئے سیاسی رہنما تھے جو اس احتساب کے نام پر ہونے والے سیاسی انتقام کا شکار ہوئے لیکن یے سلسلہ رکنے کی بجائے مزید بڑھتا گیا ذوالفقار علی بھٹو کا دئور ہو یا جنرل ضیاء الحق کی آمریت احتساب کے نام پر سیاسی کارکنان کی وفاداریاں تبدیل کروانا پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ھے ۔
نومبر 1996 میں صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور نئے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (نواز) کو اقتدار کے ایوانوں کی بھاگ دوڑ ملی میاں نواز شریف نے احتساب کمیشن قائم کر کے احتساب ایکٹ 1997ع کو اسیمبلی سے منظور کروایا اور اپنے قریبی دوست سینیٹر سیف الرحمان کو احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کر دیا (مختلف مراحل پر اس قانون میں ترامیم بھی ہوتی رہیں) اور سب سے پہلے 31 دسمبر 1985ع سے 6 نومبر 1990ع تک مبینہ بدعنوانیوں کو ثابت کرنے کے لیے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر مقدمات درج کیے گئے .
بعد ازاں ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کیاگیا جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی حکومت تحلیل کردی گئی۔ جنرل پرویز مشرف بھی اس وقت احتساب کا نعرہ بلند کیا اور 16 نومبر 1999 کو قومی احتساب بیورو National Accountability Beauro (NAB) کا قیام عمل میں آیا ۔ نتیجتاً پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی اور مسلم لیگ (نواز) سے مسلم لیگ (ق) بنا کر اقتدار میں حصہ دار بنایا گیا جنرل مشرف کے بنائے گئے قومی احتساب بیورو کو کام کرتے ہوئے 21 سال ہوچکے ہیں لیکن ملک سے کرپشن اور بدعنوانی ختم ہونے کی بجائے مزید اضافے کی طرف رواں دواں ہے اور یے اس بات کا ثبوت ہے اس ادارے کا قیام کسی طرح ملکی معیشت کے لئے فائدے مند ثابت نہیں ہو سکا ۔ بدقسمتی سے گزشتہ دو جمہوری حکومتوں نے ایک دوسرے سے انتقام لینے کے لیے اس ادارے کو برقرار رکھتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جسے ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کہنا غلط نہیں ہوگا
قومی احتساب بیورو کی طرف سے میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، فریال تالپور، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، سلمان رفیق، احسن اقبال، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور کئی دیگر سیاسی کارکنان، تاجر برادری، اور سرکاری ملازمین پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمات درج کیے گئے ہیں جن کا کوئی نتیجہ سامنے آنا مشکل ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ
Corruption Perception Index 2018 کے مطابق دنیا کو ایسے سیاسی قائدین سے خطرہ ہے جو احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں
اس طرح سے کیا کسی سیاسی جماعت کے خلاف مقدمات درج کروانے کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا جاتا تو آج ملکی معیشت میں اہم اور مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی
جن ممالک میں حقیقی جمہوریت رائج ہے وہاں احتساب کا عمل بھی غیر متنازع تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کسی فرد یا جماعت کو اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ڈینمارک، فرنلینڈ، سوئیڈن، ناروے، نیدرلینڈ، کینیڈا اور لیگزم برگ جیسے ممالک میں قانون کی حکمرانی، میڈیا کی آزادی، بہترین عدالتی نظام، شہریوں کو معلومات تک رسائی کے مضبوط قوانین موجود ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ مضبوط ہے جس کی وجہ سے یے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں پاکستان میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کے سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی رنجشیں طرق کر کے ملکی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا اگر اب بھی اداروں کو کمزور کر کے چلانا بند نہ کیا گیا تو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور ملک مزید کئی دہائیاں پیچھے رہ جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں