ثمینہ احمد۔۔زندگی مبارک (اظہر علی خان)

زندگی ستر سال کی عمر میں بھی شروع ہوسکتی ہے۔۔۔چہرے پر تازگی و رعنائی بھلا عمر کی محتاج کہاں۔۔۔ایک ہفتہ ہوگیا اس تصویر کو دیکھتے ہوئے۔۔۔کیا خود کو مکمل کرنے کے لیے اتنا طویل انتظار بھی کرنا پڑسکتا ہے؟

اداکارہ ثمینہ احمد نے اسکرین کے لیے اپنی زندگی کی پچاس بہاریں قربان کردیں۔۔۔محض دس روز کے دوران چند ملاقاتوں کے بعد ایک لمحے میں فرید احمد کو شادی کے لیے ’ہاں‘ کہہ دی۔۔۔لیکن یہ رشتہ محض ایک کمزور سے تعلق سے زیادہ ثابت نہ ہوا اور ختم ہوگیا۔۔اداکاری کے ہنر پر دسترس کے باوجود زندگی کڑوے گھونٹ پیتے گزری

زمانے کی تیز دھوپ انسان کے جذبات جھلسادیتی ہے۔۔لیکن یہ مرجھائے پھول کسی جھونکے کی آمد سے پھر کھل اٹھتے ہیں اور ایسے چہکتے ہیں کہ خود انسان بھی اپنے وسیع تجربے اور پختہ سوچ کے باوجود انہیں دبا نہیں پاتا۔۔۔مَسل نہیں پاتا۔۔۔ذہن میں بھونچال آجاتا ہے۔۔۔دل اچھل کر باہر آنے لگتا ہے۔۔۔آپ جان لیتے ہیں کہ یہ جو اچانک زندگی میں آیا ہے۔۔۔یہ محض حادثہ نہیں۔۔۔یہ وہی ہے جس کا مجھے ہمیشہ سے انتظار تھا۔۔۔ایک لمحے۔۔۔ایک نظر یا محض چند گھنٹے کی ملاقات میں آپ زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں۔۔۔لیکن ایک ہونے کی شرط جستجو ہے۔۔۔جو طلب کرے گا وہی پاسکے گا

ذہن اور دل جس سے ملتے ہیں اس کے ساتھ صدیاں نہیں بِتانی پڑتیں۔۔۔کسی کے ساتھ گزارا ہوا ایک لمحہ، ایک ہفتہ یا ایک سال آپ کی زندگی کا حاصل ہوسکتا ہے۔۔۔اس وقت (کوالٹی ٹائم) کے بعد زندگی چاہیئے بھی کسے ہوتی ہے۔۔۔انسان مکمل ہوچکا ہوتا ہے

چونکہ ہمیں ہمیشہ جذبات کو دبانے۔۔۔اپنی بات دل ہی میں رکھنے اور اظہار نہ کرنے کی تربیت بچپن سے دی جاتی ہے۔۔۔لہذا ہم تمام زندگی انہیں دباتے ہی رہ جاتے ہیں اور دکھ یہ ہے کہ یہ خواب، جذبات اور سوچیں مرتی نہیں بلکہ پچھتاوا بن کر کفن میں لپیٹ کر ہمارے ساتھ روانہ کی جاتی ہیں

زندگی کے آخری دنوں میں پتہ ہے ہم سب کی سوچ کیا ہوگی۔۔۔۔پچھتاوے کیا ہوں گے؟

یہ تو وہ زندگی نہیں تھی جو مجھے گزارنی تھی۔۔۔۔۔۔۔مجھے اظہار کردینا چاہیئے تھا۔۔۔۔مجھے اسے ڈھونڈھنا چاہیئے تھا۔۔۔روک لینا چاہیئے تھا۔۔۔۔مجھے اپنے خوابوں کے پیچھے جانا چاہیئے تھا۔۔۔مجھے خوف کا بُت توڑ دینا چاہیئے تھا۔۔۔مجھے کھل کر جینا چاہیئے تھا

میں اکثر کہتا ہوں کہ لوگ بے جوڑ رشتوں میں بندھ کر کمال اداکاری کے ساتھ زندگی گزار لیتے ہیں۔۔۔کبھی سوچا کہ جس سے دل مل رہا ہو اس سے محبت کرلی تو اس کی شدت کتنی ہوگی؟

ثمینہ احمد۔۔۔۔۔منظر صہبائی کو برسوں سے جاننے کے باوجود نظرانداز کرنے میں ناکام رہیں اور وہیں پہنچیں جہاں پہلے روز پہنچ جانا چاہیئے تھا۔۔۔لیکن پھر وقت۔۔قدرت اور قسمت کو الزام کیسے دیا جاسکتا تھا؟

مجھے اس شادی سے زیادہ تکمیلِ انسان کی خوشی ہے۔۔۔دونوں مکمل ہوگئے۔۔۔جھریوں سے پُھوٹتی خوشی اس کا واضح ثبوت ہے

مسٹر اینڈ مسز صہبائی

زندگی مبارک۔۔۔۔تکمیل مبارک۔۔۔شادی مبارک !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں