چھانگا مانگا کی کہانی (معصوم رضوی)

ایک تھا چھانگا اور ایک تھا مانگا، دونوں بھائیوں میں بڑی محبت تھی، پیشے کے اعتبار سے دونوں ڈاکو تھے۔ انگریزوں کا دور تھا، دونوں بھائی ڈاکہ زنی کرتے اور قصور کے قریب چھوٹے سے جنگل میں چھپ جاتے۔ دونوں بڑے چالاک تھے، ایک بھائی ڈاکہ ڈالتا تو دوسرا متاثرین کا دکھ بانٹتا اور جب دوسرا ڈاکہ ڈالتا تو پہلا لٹنے والوں کے مال میں سے سخی داتا بنکر تھوڑا بہت تقسیم کر دیتا، یوں چھانگا اور مانگا عوام میں مقبول رہے۔ عوام پر ڈاکہ ڈالتے اور عوام ہی پناہ دیتے، برطانوی حکام ڈھونڈھتے رہ جاتے۔ واردات کے بعد جس چھوٹے جنگل میں دونوں بھائی روپوش ہوا کرتے تھے اسکا نام چھانگا مانگا پڑ گیا۔ جانے یہ لوک کہانی ہے یا حقیقت، دونوں کا انجام کیا ہوا اس بارے میں راوی خاموش ہے مگر یہ ضرور ہوا کہ انگریزوں نے چھوٹے سے جنگل کو بارہ ایکڑ رقبے تک پھیلا دیا۔ اس مصنوعی جنگل کا مقصد ریلوے کے اسٹیم انجنز کو ایندھن فراہم کرنا تھا، جہانتک میری معلومات کا تعلق ہے تو چھانگا مانگا انسانی ہاتھوں سے لگایا گیا دنیا کا دوسرا بڑا جنگل تصور کیا جاتا ہے۔ چھانگا مانگا نہایت خوبصورت مقام ہے، مگر پاکستان سیاست میں چھانگا مانگا ایک استعارہ بن چکا ہے جس کی وجہ نہ تو مصنوعی جنگل ہونا ہے نہ ہی اسکی خوبصورتی۔

تیس سال پہلے کا ذکر ہے، جنرل ضیاالحق طیارہ حادثے میں مر چکے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی تمامتر منصوبہ بندی کے برخلاف بھٹو کی سیاسی جانشین بینظیر بھٹو حکومت میں آ چکی ہیں۔ ضیاالحق کے سیاسی وارث میاں نواز شریف یوں تو وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں مگر اپوزیشن کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایسے میں اسٹیلشمنٹ کی سرپرستی میں منتخب وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری ہے، فلور کراسنگ کا قانون موجود نہیں، سو جو چاہے دام لیکر ضمیر بیچے۔ میاں صاحب نے ارکان پارلیمان کو چھانگا مانگا کے ریسٹ ہائوسز میں ‘مہمان خصوصی’ بنا رکھا ہے، پیسہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے، ہر سہولت موجود مگر قفس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ بہرنوع تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہو گئی مگر سیاسی گھوڑوں کا اولین اصطبل چھانگا مانگا آج بھی پاکستانی سیاست کا انمٹ نقش ہے۔ بعد ازاں اٹھارویں ترمیم آئی تو فلور کراسنگ کا دروازہ بھی بند ہو گیا مگر ضمیر کا بالا خانہ اب بھی کھلا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست کو کاروبار کی شکل دینے کا سہرا شریف اور زرداریوں کے سر جاتا ہے، سیاست پہلے کبھی اتنی بدنام اور ریاست اتنی بدحال نہ تھی، جتنی آج ہے۔ موروثی سیاست نے پارلیمان کا تقدس پامال کر دیا، پانامہ اسکینڈل ہو یا سوئس بینک، عدالتیں جانے کیا فیصلہ دیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ چند برسوں میں بیش بہا خزانے اور جائیداد ایسا سوالیہ نشان ہیں جسکا تشفی بخش جواب ملزمان کے پاس نہیں ہے۔ کسی نے ڈیزل سے مال بنایا تو کسی نے تمام عزیز و اقربا کو عہدوں کی بندر بانٹ کی، زمینوں پر قبضہ، ملکی وسائل پر ڈاکہ زنی، سیاست، ریاست کو کھوکھلا کرتی رہی۔

بعض اوقات تو مجھے لگتا ہے ہم سب سیاست اور صرف سیاست کرتے ہیں، مملکت کے چاروں ستون جب سیاست کرینگے تو کام کون کریگا۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں مگر بتائیے کہ جسٹس منیر سے ثاقب نثار تک سیاسی فیصلوں کی تاریخ، ایوب، ضیا اور مشرف سے بڑا سیاستداں اور کون ہو گا، سیاسی دائو پیچ میں ملک عزیز کی نوکر شاہی کو بھلا کون مات دے سکتا ہے۔ صحافت نے ہر حکومت کا ساتھ دیا خواہ جمہوریت ہو یا آمریت، مالکان اور صحافیوں نے ہر دور میں فوائد بھی حاصل کیے۔ چند سر پھرے ہمیشہ رہے ہیں اور ہر شعبے میں رہے ہیں، انکو نکال دیجیئے تو چڑھتے سورج کے پوجا کرنیوالوں کا ایسا انبوہ عظیم ہے کہ رہے نام اللہ کا، ویسے آپس کی بات ہے سیاست کے میدان میں کھلاڑی تو سب ہیں مگر اصل کھلاڑی تو صرف اسٹیبلمشمنٹ اور سیاستداں ہیں، سیاستدان بھی اسلئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حقیقی ساتھی جو ٹہرے۔ کبھی آئی جے آئی بنتی ہے، کبھی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ، کبھی صدر غلام اسحاق خان حکومت برطرف کرتے ہیں تو کبھی اپنی ہی پارٹی کے صدر فاروق لغاری فلور کراسنگ کر جاتے ہیں۔ کبھی سپریم کورٹ پر حملہ ہوتا ہے تو کبھی میاں نواز شریف میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچتے ہیں، پھر یہی میاں صاحب افتخار چوہدری کی بحالی کیلئے لانگ مارچ شروع کرتے ہیں۔ میاں صاحب اڑتیس سالہ سیاست کے بعد نظریاتی بننے سے پہلے اسٹیبشلمنٹ کے لاڈلے رہے تو زرداری صاحب نے بھی چہیتے بننے کیلئے کم کوششیں نہیں کیں۔ آصف زرداری مفاہمت کی سیاست پر تمام کھلاڑیوں کو بلاتفریق ایکٹینشن فراہم کرتے ہیں، یہی زرداری صاحب اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومتی جماعت کیساتھ ملکر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنواتے ہیں تو کبھی انہیں ہٹوانے کیلئے تحریک عدم اعتماد لاتے ہیں، واہ ری سیاست، کیسے کیسے جلوے دکھاتی ہے۔

چلیں یہ بتائیں کہ چیئرمین سینیٹ بننے سے پہلے کتنے پاکستانی صادق سنجرانی کو جانتے تھے، مگر ٹہریئے اس سے پہلے اس سے بھی بڑا عجوبہ سیاست میں گزرا ہے۔ جی ہاں، ایک صاحب تھے معین قریشی، ورلڈ بینک سے تعلق، عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم، اچانک انہیں وزیر اعظم بنا دیا گیا، اتنی عجلت میں کہ حلف اٹھانے سے پہلے شیروانی اور شناختی کارڈ ایک ساتھ بنوائے گئے۔ بہرحال ذکر تھا سنجرانی صاحب کا، سینیٹ میں اپوزیشن کی قطعی اکثریت، سنجرانی صاحب کو ہٹانے سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا مگر اپوزیشن اپنا زور بازو دکھانا چاہتی تھی، خیر جناب 64 ارکان کھڑے نظر آئے، ووٹ پڑے 50 تو صاحب اب پورے 64 سر جوڑ کر 14 گھوڑوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ ایوان بالا میں دن دھاڑے گھوڑوں کی خرید و فروخت دیکھ کر یقین ہو گیا کہ چھانگا مانگا سیاست آج بھی زندہ ہے۔ اپوزیشن بلبلا رہی ہے تو حکومت کی اطمینان بخش مسکراہٹ بھی قابل دید ہے۔ یہ بات تو پانچویں کلاس کا بچہ بھی جانتا ہے کہ کوئی چیز بیچی جاتی ہے تو بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں شریک ہوتے ہیں۔ حکومت سمیت تمام اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی مطمئن مسکراہٹ انکے ووٹر کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے، اگر عمران خان نے بھی گھوڑوں کی خرید و فروخت کرنا تھی تو تبدیلی کے بھاشن کیوں دیئے تھے، صداقت اور امانت کی اذانیں کیوں دی تھیں۔ جناب من الیکٹبلز کی رسوائی سہی، اسٹیبلشمنٹ کی چاہ کیلئے کابینہ میں غیر منتخب ارکان کی بڑھتی ذلت برداشت کی، آئی ایم ایف اور قرضوں کا کشکول جھیلا، اب پارلیمان میں خرید و فروخت، تو بھیا تبدیلی کہاں ہے۔ کہاں گئے حقیقی جمہوریت کے درس، برطانوی جمہوریت کےخطبے، ایمانداری اور اخلاقیات کے لیکچر، حضور میاں صاحب، زرداری صاحب اور ان سے پہلے جانے کتنے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرتے کرتے ذلت کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ ہر سیاستداں اسٹیبلشمنٹ کے مظالم کی دہائی تو دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک سیاستداں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتے رہینگے کوئی تبدیلی نہیں آئیگی، کچھ نہیں بدلے کا، عوام اسی طرح لٹتے رہینگے، ملک بدحال ہوتا جائیگا، جانے اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کا یہ کھیل کب تک جاری رہیگا۔

ارے بات جانے کہاں جا نکلی، ہاں تو عرض یہ ہے کہ ایک تھا چھانگا اور ایک تھا مانگا، دونوں بھائیوں میں بڑی محبت تھی، پیشے کے اعتبار سے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں