چندو کو بڑے عرصے سے کسی اچھے ڈاکٹر کی تلاش تھی۔شہر کے بہترین ڈاکٹروں کو دکھا چکا تھا لیکن کوئی چندو کا مسئلہ حل کرنے کو تیار نہ تھا ۔ ایک روز رستے میں اسے شبراتی چاچا مل گئے، وہ چندو کی حالت سے باخبر تھے کہنے لگے میاں چندو ، ایک خاص ڈاکٹر کا پتا چلا ہے وائی وائی خان روڈ پر اس کا کلینک ہے اسے جاکر دکھا دو۔ نام ہے اس کا ڈاکٹر پانڈو ۔
چندو اسی شام ڈاکٹر پانڈو کے پاس جا پہنچا ، کلینک میں بیٹھا وہ غور سے ڈاکٹر کے چہرے کو دیکھ رہا تھا،اسے وہ چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر پانڈو نے بھی یہ بھانپ لیا اور بولا جی اپنا مسئلہ بتائیے ، چندو بولا ڈاکٹر صاحب میرا مسئلہ یہ ہے کسی بھی چیز کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی آجاتا ہے، ڈاکٹر پانڈو یہ سن کر بولے کہ اس میں ایسی کون سی پریشانی والی بات ہے،کھانے پینے کی چیزیں دیکھ کر سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، چندو بولا یہی تو مسئلہ ہے ڈاکٹر صاحب، میرے منہ میں پانی ایسی چیزیں دیکھ کر بھی آجاتا ہے، جن چیزوں کا کھانے پینے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر پانڈو ، چندو کی یہ بات سن کر تھوڑا حیران ہوا، اور بولا کہ کیا مطلب؟ چندو نے جواب دیا کہ مطلب یہ کہ جیسے میں کل ایک پوش علاقے سے گزر رہا تھا ہر طرف بنگلے ہی بنگلے بنے ہوئے تھے، میں نے وہاں ایک خالی پلاٹ دیکھا اور دیکھتے ہی منہ میں پانی آگیا، اس سے کچھ دن پہلے میں ہائی وے سے گزر رہا تھا کہ خالی زمینیں دیکھ کر بھی بے اختیار میرے منہ میں پانی آگیا تھا، اکثر بڑے بڑے پلازہ دیکھ کر بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہونے لگا ہے۔ چندو کی بات سن ڈاکٹر پانڈو کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔ ڈاکٹر پانڈو نے چندو سے سوال کیا کہ کیا تم لینڈ مافیا کے آدمی ہو؟ چندو بولا نہیں، ڈاکٹر پانڈو نے کہا کہ تو پھر کیا چائنا کٹنگ والے بھائی لوگوں سے تمہارا کوئی تعلق ہے؟ چندو بولا توبہ کیجئے ، ڈاکٹر پانڈو بولا پھر تو سائیں سرکار سے تمہارا کوئی تعلق ہوگا ؟ چندو بولا حد ہوگئی کیوں مجھے شرمندہ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر پانڈو بولا شرمندہ نہیں کررہا، بطور ڈاکٹر تمہارا کیس اسٹڈی کرنے کی کوشش کررہا ہوں ، تو یہ بتاؤ کہ کہیں تم بلڈنگ کنٹرول ، بورڈ آف ریونیو یا لینڈ رجسٹریشن کے محکموں میں تو کام نہیں کرتے؟ چندو بولا ایسا بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر پانڈو نے کہا کہ اچھا تو کہیں پراپرٹی ایجنٹ تو نہیں ہو تم؟ چندو بولا نہیں صاحب ایسا بھی نہیں ہے۔
ڈاکٹر پانڈو اب کچھ سوچ رہا تھا پھر اس نے کہا کہ میرے سوالا ت سے پریشان نہ ہونا ، میں تمہارا مرض جاننے کی کوشش کررہا ہوں ۔ یہ بتاؤ کہ کیا تم زمین دار ہو اور بڑی کوٹھی میں رہتے ہو؟ اس پر چندو بھی جھنجلا سا گیا، بولا نہیں جناب ، میں تو نوکری پیشہ آدمی ہوں اور کرائے کے گھر میں رہتا ہوں ، اس پر ڈاکٹر پانڈو نے ایک گہری سانس لی، جیسے انہیں چندو کا مسئلہ سمجھ میں آنے لگا ہو، بولے منہ میں پانی تو بھوکے بندے کو آتا ہوں اور تم چھت کے بھوکے ہو۔ تمہیں دراصل اپنا ایک مکان چاہیئے۔ ڈاکٹر پانڈو کی یہ بات سن کر چندو کچھ نہ بولا۔بلکہ وہ کسی سوچ میں گم ہوگیا۔
ڈاکٹر پانڈو نے کہا کہ میں تمہیں ایک نسخہ لکھ کر دے رہا ہوں ، اتنے میں چندو نے ڈاکٹر پانڈو کی بات کاٹی اور بولا، ایک مسئلہ اور بھی ہے ڈاکٹر صاحب؟ ڈاکٹر پانڈو نے پوچھا وہ کیا؟ چندو بولا مجھے روز عجیب و غریب قسم کے خواب بھی آتے ہیں، جن کو دیکھ کر میں بے چین ہوجاتا ہوں ۔ اچھا ؟کیا دیکھتے ہو خوابوں میں؟ ڈاکٹر پانڈو نے پوچھا ۔ چندو بولا مجھے خواب میں پچاس لاکھ گھر نظر آتے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ میں وہ گھر گن رہا ہوں اور گنتے گنتے تھک کر بے حال ہوجاتا ہوں ۔چندو کی بات سن کر ڈاکٹر پانڈو نےگہری سانس لی پھر سر ہلایا جیسے انہیں کوئی بات سمجھ آگئی ہو ۔
دونوں کچھ دیرخاموش رہے۔۔ پھر ڈاکٹر پانڈو بولے کہ ٹھیک ہے آپ کا مسئلہ اب کلیئر ہوگیا ہے،آپ کا مرض پکڑ میں آگیا ہے۔میں نسخہ لکھ کر دے دیتا ہوں ۔
ڈاکٹر پانڈو نے نسخہ لکھا اور پانڈو کو پڑھ کر سنانے لگے۔بولے۔ آپ نے مہریہ ٹاؤن میں بنگلہ بک کرانا ہے اور ، صبح ، دوپہر شام اس کی قسطیں ادا کرنے کیلئے پیسا کمانا ہے۔ مزید یہ کہ پراپرٹی ایجنٹ مافیا اور سرکاری حکیموں سے دور رہنا ہے، اور خاص احتیاط یہ ہے کہ پورشن لینے سے سخت پرہیز کرنا ہے۔
ڈاکٹر پانڈو کا نسخہ سن کر چندو حیران و پریشان سا رہ گیا، اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا علاج ہونے کے بجائے اس کا مزاق اڑایا گیا ہو، چندو بولا ڈاکٹر صاحب اس نسخے کیلئے میں اتنی بڑی رقم کہاں سے لاؤں گا؟ یہ سن کر ڈاکٹر پانڈو بولا کہ ہمارا کام علاج کرنا اور نسخہ لکھ کر دینا ہے ، باقی کام مریض کا ہے۔
یہ بات سن کر چندو کو سخت غصہ آیا لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ چندو کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب منہ میں پانی آنے کا بڑا مہنگا نسخہ بتا دیا آپ نے ، یہ تو فی الحال اپنے بس کی بات ہی نہیں ہے، لگتا ہے چندو کا یہ مرض تو لا علاج ہی رہ جائے گا۔ لیکن ایک مسئلہ اور بھی ہے ڈاکٹر صاحب۔ اس کا کوئی آسان سا علاج بتا دیں۔اس پر ڈاکٹر پانڈو بولے ،اوکے بتاؤ۔
چندو کہنے لگا کہ میرے منہ میں پانی صرف پراپرٹی دیکھ کر نہیں آتا بلکہ اگر میں کسی کو پلیٹ میں گرم گرم بھاپ اڑاتے حلیم پر ، فرائی کی ہوئی کرکری پیاز ڈالتے، اور اس کے اوپر چاٹ مصالحہ ڈالتے ہوئے ،اور پھر اس میں نمک، کٹی ہوئی ادرک اور ہرا مصالحہ ملاتے ہوئے، اور پھر اوپر سے لیموں نچوڑ کر جب اسے پلیٹ میں مکس کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بھی یہ منظر دیکھ کرمیرے منہ میں پانی آجاتا ہے۔۔نہ جانے کیوں؟
یہ سن کر ڈاکٹر پانڈو جیسےمچل سے گئے۔ اور تھوڑا غصے سے بولے ارے ظالم کیا منظرکشی کردی، میرے تو خود میں پانی بھر آیا، پھرجلدی سے بولے ، خیر ہے یہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔اب تم جاؤ۔۔
چندو ان کا شکریہ ادا کرکے اٹھا اور پلٹ کر جانے لگا ، اتنے میں اسے پیچھے سے ڈاکٹر پانڈو کی ہلکی سی آواز سنائی دی، وہ انٹرکام پر اسسٹنٹ سے کہہ رہے تھے کہ فورآٓ ایک پلیٹ حلیم آرڈر کردو ، اور ہاں حلیم خوب گرم ہونا چاہیئے۔
پانڈو ان کی یہ بات سن کر باہر نکل آیا۔وہ زیر لب مسکرا بھی رہا تھا کہ جیسے کوئی شرارت کرکے آرہا ہو، سڑک سے گزرتے ہوئے اس کی نگاہیں بھی اب کسی حلیم کے اسٹال کو تلاش کررہی تھیں۔ تاہم اسے قریب میں کوئی اسٹال نظرنہیں آیا۔
چندو نے اب گھر کا رستہ لینے کی سوچی، وہ رکشہ لیکر گھر جارہا تھا کہ ایک سوزوکی نزدیک آگئی ، جس میں لگے لاؤڈ اسپیکروں پر ایک خاص اعلان ہورہا تھا،اعلان سننے کیلئے رکشے والے نے بھی رفتار کچھ کم کرلی تھی۔
‘‘حکومت کی جانب سے خوش خبری ، ایم ڈی اے اسکیم میں پلاٹ لینے کا سنہری موقع ۔ اپنا پلاٹ بک کرائیں، اور اپنی زمین کے مالک بن جائیں۔اپنے خوابوں کی تعبیر پائیں، اپنی جنت اپنا گھر بنائیں۔خوشخبری۔ خوشخبری ’’۔۔
اعلان سن کر رکشے میں بیٹھے چندو کے منہ میں پانی آنے لگا۔اتنے میں رکشے والے کی آواز گونجی، سب فراڈ ہے صاحب۔۔
رکشا اب پوری رفتار سے سڑک پرفراٹے بھر رہا تھا۔
.
(ssssss786@hotmail.com)