میرے خیال میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد عمران خان پاکستان کے وہ واحد پاپولر لیڈر ہیں۔ جن کی شہرت چاروں صوبوں میں یکساں ہے۔ سندھ ہو، پنجاب، خیبرپختونخوا یا بلوچستان۔ آپ کو چاروں صوبوں میں ان کے نظریات سے اتفاق اور ان پر اندھا دھند اعتماد کرنے والے باآسانی مل جائیں گے۔ لیکن میرا ایک دوست اس سے متفق نہیں۔ وہ کہتا ہے ذوالفقار علی بھٹو بھی بڑے مشہور لیڈر تھے۔ ان کی بھی چاروں صوبوں میں ایسی ہی مقبولیت تھی۔
انہوں نے ایسے ہی سب کچھ بدلنے کے بڑے بڑے وعدے کئے تھے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ ان سے بھی عوام نے دودھ کی نہریں بہنے کی امید لگائی تھی۔ پھر ہوا کیا۔ دیکھ لیں آج پاکستان کے ہر شہری کے پاس کپڑا اور مکان ہو یا نہیں بیشتر کو ایک وقت کی روٹی تو مل ہی جاتی ہے(بشکریہ سیلانی ٹرسٹ)۔
خیر کیا کریں۔ ہم ہیں ہی بڑی پرامید قوم۔ ہم کبھی امید نہیں چھوڑتے۔ ہر کسی سے ڈھیرساری امیدیں لگالیتے ہیں۔ کچھ پوری ہوتی ہیں۔ باقی اللہ اللہ خیر سے اللہ۔
لیکن ایسےمیں جب پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار قوم نے سب سے ہی امید چھوڑدی تھی۔ قدرت نے ہمیں عمران خان جیسا نایاب ہیرا عطا کردیا۔ جس سے ہم نے تاریخ کی سب سے زیادہ امیدیں لگالی ہیں۔
اور اب ان کے وزیراعظم بنتے ہی لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
بجلی جانا بند کردے گی، پانی آنا شروع کردے گا، معاشی بحران ختم ہوجائے گا، بہت جلد آسمان سے نوٹوں کی بارش ہوگی، دودھ کی نہریں بہنا شروع کردیں گی، گنجوں کے سر پر بال اگ آئیں گے، منگو دھوبی کی روٹھی بیوی مان جائے گی، گڈو کو بھی لڑکیاں لفٹ کرانا شروع کردیں گی، ماموں کے سفید بال پھر سے کالے ہوجائیں گے۔
یوتھیے جذبات کے بجائے لوجیکل باتیں کرنے لگیں گے، خلائی مخلوق خلا میں واپس چلی جائے گی۔ بزرگ سیاست میں مداخلت بند کردیں گے۔ اگلے چھ ماہ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کا نیا معاشی اتحاد بنے گا۔ ہمیں امریکا کی منت سماجت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم خود مختار ہوجائیں گے۔ ایک آواز لگائیں گے تو چین یا عرب دنیا قرض اتارنے آجائیں گے۔ اور اسی طرح کے بہت سے کام جن کی ہم نے خان صاحب سے امید لگارکھی ہے۔ وہ سب فٹافٹ ہوجائیں گے۔ اور چٹکی بجاتے ہی ملک اور قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔
جو لوگ یہ سب سوچ رہے ہیں۔ انہیں میرے دوست کا برادرانہ مشورہ ہے کہ وہ یہ امید چھوڑدیں کیوں کہ فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔
البتہ میں ایسا ہرگز نہیں سوچتا۔ میرے خیال سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیئے۔ کیوں کہ بھئی امید پر تو دنیا قائم ہے۔ اور ویسے بھی میرا پختہ یقین ہے کہ تبدیلی آئے گی۔ ضرور آئے گی۔ پی ٹی آئی کے سو روزہ پلان پر بھی عمل ہوگا۔ لیکن ہر چیز کا وقت متعین ہے۔ اب یہ وقت کب آئے گا یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ البتہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
تو بس آپ بھی صبر کا دامن تھامے رکھیں کیوں کہ پی ٹی آئی نے جتنے بڑے بڑے وعدے کررکھے ہیں۔ ان خوابوں کی تعبیر چند دن کا کام نہیں۔
وہ کیا ہے ملک بھر میں پچاس لاکھ مکان چند دن تو کیا چند سال میں بھی بن جائیں تو بڑی بات ہے۔
پھر ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے میں بھی وقت لگے گا۔ بیرون ملک پڑے ستائیس ہزار ارب روپے بھی تو واپس لانے ہیں۔ جو کسی صورت بھی دو تین دن کا کام نہیں۔
ویسے بھی عمران خان کپتان ضرور ہیں لیکن انہیں ٹی ٹوئنٹی میچ کا کوئی تجربہ نہیں۔ اس لئے حکمرانی کی اس اننگز میں ان سے دھواں دھار بیٹنگ کی امید رکھنا ایسا ہی ہے۔ جیسے آخری بال پر 6 رنز کی ضرورت ہو اور آپ مصباح الحق کو بیٹنگ کے لئے بھیج دیں۔ ایسے میں میچ کا نتیجہ2007کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل والا ہی ہوگا۔
البتہ ون ڈے اور ٹیسٹ میچ میں عمران خان کے وسیع تجربے کا کوئی ثانی نہیں۔ بس اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ون ڈے کی طرح کبھی مار اور کبھی پیار سے حکومت چلاتے ہیں۔ یا پھر یہ پانچ سال کی اننگز پانچ دن کے ٹیسٹ میچ کی طرح آرام آرام سے کھیلتے ہیں۔
بس انہیں یہ خیال رکھنا ہے کہ میچ پورے پانچ دن چلے۔ کیوں کہ وہ وزیراعظم تو بن گئے ہیں۔ لیکن یہ وہ ملک ہے جہاں آج تک کسی وزیراعظم نے پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔