برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کو 50 سال پہلے چارلس ڈیگال کے موقف کی حقیقی تصویر کیوں کہا جارہا ہے؟ ڈیگال کون تھا اور اس نے برطانیہ سے متعلق کیا کہا تھا،یہ جاننے کیلئے تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا۔۔
1961 کی بات ہے جب برطانیہ نے پہلی بار یورپی کمیونٹی میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا۔۔ان دنوں یورپی یونین، یورپی کمیونٹی کہلاتی تھی۔۔وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک یہ اتحاد ٹریڈ ریلیشن پر مبنی تھا،بعد ازاں رکن ممالک نئے نئے معاہدے کرکے کمیونٹی کو سیاسی،مالیاتی اور دیگر میدانوں میں بھی وسعت دیتے گئے۔۔یوں 1992 میں یورپی یونین کا قیام عمل میں آگیا۔۔
1961میں جب برطانیہ نے یورپی کمیونٹی میں رکنیت کیلیے اپلائی کیا،تو ان دنوں فرانس میں صدر چارلس ڈیگال کی حکومت تھی۔یہ وہی چارلس ڈیگال تھے۔جو جنگ عظیم دوم کے دوران فرانسیسی فوج کے جنرل تھے۔اور جنہوں نے فرانس پر ہٹلر کی جرمن نازی فوج کی قبضے کی کوشش کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی تھی۔۔بعد میں چارلس ڈیگال فرانس کی سیاست میں آنے اور پہلے وزیر اعظم پھر صدر کے عہدے پر فائز رہے۔۔
برطانیہ کے بارے میں چارلس ڈیگال کے خیالات بڑے واضع تھے۔۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ ایک الگ قوم ہے جو باقی یورپ سے الگ شناخت رکھتی ہے۔جغرافیائی اعتبار سے بھی برطانیہ الگ جزیرہ ہے جو سرزمین یورپ سے پرے واقع ہے۔۔اُنکا کہنا تھا کہ برطانیہ کی سیاست یورپ کہ بجائے امریکا کے گرد گھومتی ہے۔۔ڈیگال کا ماننا تھا کہ برطانیہ اپنی روایات کے معاملے میں بُہت قدامت پرست ہے،جبکہ وہ اپنی الگ شناخت کے حوالے سے بھی غرور کا شکار ہے۔۔
برطانیہ کے بارے میں اپنے ان نظریات کی وجہ سے چارلس ڈیگال کو یقین تھا کہ برطانیہ یورپی کمیونٹی کے رکن کے طور پر تنظیم کے لیے درد سر بن جائے گا۔برطانیہ تنظیم سے معاہدوں میں بھی بہُت مین میخ نکالا کرے گا۔۔اور کیونکہ اس کے تجارتی اور مالیاتی مفادات بھی امریکا سے وابستہ ہوچکے ہیں۔۔ساتھ ہی سیاسی طور پر بھی برطانیہ، یورپی کمیونٹی کے لئے سنگین مسائل پیدا کرے گا کیونکہ وہ عالمی معاملات میں امریکا کا سب سے گہرا اتحادی ہے۔اور یورپ میں امریکی اثر و رسوخ میں اضافے کی بڑی وجہ بھی بن سکتا ہے۔۔
برطانیہ سے متعلق اپنے ان نظریات کی بنا پر چارلس ڈیگال نے 1963 میں برطانیہ کی یورپی کمیونٹی میں رکنیت حاصل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔۔فرانس کو یورپی کمیونٹی کے بانی رکن کی حیثیت سے ویٹو پاور حاصل تھا،چارلس ڈیگال نے اس ویٹو پاور کا بے باک انداز سے استعمال کیا،اور برطانیہ کو یورپ کے پاس نہ آنے کا سگنل دیا۔۔
یورپی کمیونٹی میں شامل دیگر رکن ممالک میں بھی برطانیہ کو رکن بنانے سے متعلق ملی جلی رائے پائی جاتی تھی،کچھ ارکان کا کہنا تھا کہ برطانیہ ایک بڑی مارکیٹ ہے جس کی کمیونٹی میں شمولیت سے تمام ارکان کو فائدہ ہوگا۔اور باہمی تجارت سستی اور آسان ہوگی۔جبکہ یورپی کمیونٹی کے کئی رکن ممالک ایسے بھی تھے جو اس وقت فرانس کے موقف کے حامی تھے۔
بات یہ بھی تھی کہ جب 1952 میں پہلی بار یورپی کول اینڈ اسٹیل کمیونٹی کا قیام عمل میں آیا، جو پانچ سال بعد یورپی کمیونٹی جیسے اقتصادی اتحاد میں بدل گئی تھی۔ تو اس وقت برطانیہ نے اسے اپنے مفادات سے متصادم قرار دیا تھا اور اسے یورپ اور امریکا کے مفادات کے درمیان بھی ایک ٹکراؤ سے تعبیر کرتا تھا،تاہم اگلے چند سالوں میں جب یورپی کمیونٹی نے ایک زبردست تجارتی خطّے کے طور پر خود کو منوایا تو برطانیہ کو بھی اس خطے سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہوئی۔ساتھ ہی اسے اپنی سیاسی تنہائی کا بھی احساس ہوا تھا،تاہم اب قبولیت کا آسان وقت گزر چکا تھا۔۔فرانس کے صدر چارلس ڈیگال نے محسوس کیا تھا کہ برطانیہ کی رکنیت کی اس خواہش کا مطلب اب دو خطوں میں تعاون کے بجائے اس سے مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
خیر برطانیہ کی اس درخواست کو ویٹو ہوئے چار سال گزر گئے۔اس دوران برطانیہ نے خود کو یورپی کمیونٹی کا اہل بنانے کی مزید کوشش کی۔ساتھ ہی یورپ سے طویل المدت وسیع تر تعاون کا بھی یقین دلایا۔1967 میں برطانیہ نے ایک بار پھر یورپی کمیونٹی میں شمولیت کی درخواست پیش کی۔لیکن چارلس ڈیگال اس وقت بھی فرانس کے صدر تھے جن کو برطانیہ کی نئی درخواست بھی متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔اور دنیا نے دیکھا کہ ڈیگال نے ایک بار پھر برطانیہ کی یہ درخواست بھی مسترد کردی۔ دوسری بار ویٹو کیے جانے کے بعد برطانیہ کی کمیونٹی میں شمولیت کے امکانات بلکل ہی معدوم ہو گئے۔
پھر 1969 کا سال آیا،فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال اس دنیا میں نہ رہے۔اور برطانیہ کی راہ کا بڑا پتھر دور ہوگیا۔برطانیہ نے اگلے سال پھر کمیونٹی میں شمولیت کے لیے اپلائی کردیا۔۔کمیونٹی نے اس بار برطانیہ کی درخواست، بطور درخواست دہندہ ملک کے طور پر قبول کرلی۔اور شمولیت کیلئے مذاکراتی عمل کا آغاز کردیا۔۔یہ مذاکراتی سلسلہ یوں تو 1961 سے جاری تھا جب کمیونٹی کو برطانیہ کی پہلی باضابطہ درخواست موصول ہوئی تھی،تاہم فرانس کے سخت رویئے اور دو بار درخواست ویٹو ہونے کی وجہ سے اس مذاکراتی عمل میں قابل ذکر تیزی نہیں آسکی تھی تاہم،چارلس ڈیگال کے انتقال کے بعد مذاکراتی عمل تیز ہوگیا۔تجارتی معاملات پر شق در شق اور اشیاء در اشیاء تجارت پر بات ہوتی رہی۔1972 میں یہ مذاکراتی عمل تکمیل کو پہنچ گیا،اور پہلی جنوری 1973 کو وہ تاریخی دن آگیا جب برطانیہ نے بطور رکن یورپی کمونٹی کی تنظیم کو جوائن کرلیا۔۔یہ یورپی کمیونٹی میں پہلی توسیع تھی جس کے بعد یورپی کمیونٹی کی مارکیٹ وسیع تر ہو گئی ۔ برطانیہ کے ساتھ ڈنمارک اور آئرلینڈ نے بھی یورپی کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔اس طرح 1973 میں یہ اتحاد 9 ممالک پر مشتمل ہو گیا تھا۔ ان نو ممالک میں باقی چھ یورپی کمیونٹی کے بانی ارکان تھے۔یعنی فرانس،جرمنی،اٹلی،نیدر لینڈز،بیلجیم اور لکسمبرگ۔۔
برطانیہ کا یورپی برادری کے ساتھ تنظیمی رشتہِ 47 قائم رہا۔اس رشتے کی بدولت دونوں خطوں نے بھرپور اقتصادی فوائد بھی حاصل کیے۔۔تاہم اس دوران یہ تعلقات کئی مسائل سے بھی دو چار رہے۔
یہ مسائل جب سامنے آئے تو چارلس ڈیگال کی کئی باتیں سچ ثابت ہونے لگیں مثلاً جب 1992 میں یورپی کمیونٹی ، یورپی یونین میں تبدیل ہوئی تو یونین نے سنگل کرنسی یورو کا پلان پیش کیا،تاہم برطانیہ سنگل کرنسی کے معاہدے میں شامل نہیں ہوا ۔ برطانوی عوام نے ریفرنڈم میں اپنی کرنسی پونڈ کو ترک کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔۔ڈیگال کی بات سچ ہو گئی تھی کہ برطانیہ ہم سے نہیں جڑے گا،بلکہ وہ اپنی شناخت اور انفرادیت کو ترجیح دے گا۔
اسی طرح 1995 میں جب یورپ میں schengen treaty عمل میں آیا تو برطانیہ اس میں بھی بھلا کیسے شامل ہوسکتا تھا۔۔ایسا معاہدہ جس میں 26 رکن ممالک نے آمد و رفت کیلئے اپنے بارڈر ختم کرنے کا اعلان کیا ہو۔۔برطانیہ اس معاہدے میں بھی شامل نہیں ہوا۔ڈیگال کی ایک بات اور سچ ہوگئی۔۔
نوّے کی دہائی گزری تو نائن الیون ہو گیا،دور اب مزید بدل چکا تھا۔برطانیہ اب ان معاہدوں کو بھی بوجھ سمجھ رہا تھا جن پر وہ بطور یورپی یونین کے رکن،دستخط کر چکا تھا۔برطانیہ میں یورپی یونین سے نکلنے کیلئے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں۔۔
2016 میں ٫برٹش ایگزٹ فرام یورپی یونین’ کے حوالے سے برطانیہ میں ایک ریفرنڈم ہوا۔جس میں عوام نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔۔اس ریفرنڈم کے ساڑھے تین سال بعد 31 جنوری 2020 کو برطانیہ باقاعدہ طور پر یورپی یونین سے نکل گیا۔۔یوں یہ 47 سالہ سفر آخر کار اختتام پزیر ہو گیا۔۔
برطانیہ کے یورپی برادری کے ساتھ سفر کے حوالے سےیہ مضمون کوئی منفی تبصرہ نہیں ہے۔۔بلکہ یہ اپنے مفادات اور عوام کی سوچ پر چلنے والے ایک ملک کی پالیسیوں کی داستان ہے جو سامنے والے ممالک سے دباؤ میں آئے بغیر اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔۔
بہر حال چارلس ڈیگال اپنی جگہ درست تھے وہ جانتے تھے برطانیہ سے شراکت داری طویل نہیں ہوسکتی۔۔
بریگزٹ کو اس صدی کے چند بڑے واقعات میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔۔وہیں تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو چارلس ڈیگال بھی بُہت یاد آئے۔۔ بریگزٹ پر آج کوئی کہہ رہا ہے کہ ڈیگال سچ کہتا تھا،کسی نے لکھا ڈیگال تو سیاسی نجومی کی آنکھ رکھتا تھا۔۔اور ایک لکھنے والے نے اسے “ڈیگال کا بریگزٹ” کہہ کر بات ہی ختم کردی۔۔ شاید ڈیگال کی آتما کو شانتی پہنچانے کی کوئی کوشش تھی۔۔