سیاست میں فوج اور فوج میں سیاست، دونوں کیلئے سم قاتل سہی مگر بوٹ سیاست پر چھایا ہوا ہے اور اسکا سہرا بلا مقابلہ فیصل واوڈا کے سر جاتا ہے۔ حقائق بہرطور حقائق ہوتے ہیں مگر بعض حقائق پر پردہ پڑا رہنا ہی اچھا ہوتا ہے، غلاظت کے بدبودار انبار نالیوں اور گٹر میں تو برداشت کیے جا سکتے ہیں مگر گھروں اور ٹی وی لائونجز میں نہیں رکھے جاتے۔ سمجھ نہیں آیا کہ بوٹ کس کے سر پر پڑا، چوٹ پورے نظام پر پڑی یا نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ درد اور تکلیف بائیس کروڑ عوام نے محسوس کی، پارسائی کے اجلے لبادوں میں چھپی ننگی شہرت، عریاں اخلاقی گراوٹ، بے لباس ذھنی زوال پوری قوم کیلئے حیران کن ہے مگر شاید حکومت کیلئے نہیں!
جانے بوٹ کا استعارہ کب کہاں سے وارد ہوا، احترام کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ’بوٹ‘ کی جگہ ’کیپ‘ کو علامت بنایا جاتا مگر خیر جب اجلے میزبان و مہمانان گرامی کرسیوں پر اور سیاہ بوٹ میز پر براجمان تھا تو وزیر موصوف نے چمک پر کچھ ایسی بلیغانہ روشنی ڈالی کہ میں قریب جا کر جائزہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ بوٹ کے چہرے پر ناراضگی تھی، خجالت یا احساس تفاخر کچھ نہ جان سکا، ہاں آنکھوں تلے دو دمکتے آنسو ضرور نظر آئے۔ جانے یہ آنسو بوٹ کے تھے یا کسی اور کے، خوشی، غم، فخر یا اہانت کے، پہچاننے میں ناکام رہا بہرحال آنسو بوٹ کے اپنے ہوں، کسی وزیر کے، جمہوریت کے یا پھر بائیس کروڑ بلڈی سویلنز کے، کیا فرق پڑتا ہے آنسو تو آنسو ہوتے ہیں۔
کہاوت تو سنی ہو گی آپ کا جوتا آپ کا سر، مگر یہاں سمجھ نہیں آتا کہ جوتا کس کا تھا اور سر کس کا، شاید فیصل واوڈا کو بھی سمجھ نہیں آیا۔ تذلیل کسی ادارے کی ہوئی، چینل کی، میزبان کی، مہمان کی یا بائیس کروڑ عوام کی، شاید انکی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا۔ میری طرح بہت سے لوگ کاشف عباسی کا شو دیکھتے ہونگے، عمدہ اور معیاری مواد، غیرجانبدارانہ مگر چھبتے سوالات، عمومی طور پر اچھی مباحث، اس سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ عباسی صاحب نے ریٹنگ کیلئے کوئی غیر ذمہ دارنہ رویہ نہیں اپنایا کیونکہ کبھی اسکی ضرورت بھی نہیں رہی، مگر یقین جانیں بوٹ پروگرام میں انکا رویہ بھی ناقابل یقین تھا۔ یہ بات ہضم کرنا مشکل کام ہے کہ میزبان کو اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہ تھا چلیں ایک منٹ کو مان لیں اگر ایسا ہی تھا تو جب یہ بوٹ میز پر رکھا گیا تو میزبان کو اسی وقت ٹوکنا چاہیئے تھا، لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ اسے ایک پر لطف منظر کے طور پر لیا گیا، ہنسی مسکراہٹ، جملے بازی یہ سب کچھ کاشف عباسی سے ہرگز متوقع نہ تھا۔ دوسرے ہی روز حامد میر نے فیصل واوڈا کو مہمان بنایا اور وزیر موصوف نے ساری ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے میزبان کو کلین چٹ بھی دی مگر حضور ٹی وی بڑا ظالم میڈیا ہے، یہاں فوٹیج فیصلہ کرتی ہے کسی کی تصدیق، تردید یا تاویل سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جو ہوا سب نے دیکھا اور اپنی رائے قائم کر لی، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق رد عمل میں تاخیر کا عذر صرف ایک بھونڈا مذاق لگتا ہے ۔
بوٹ سیاست میں کب آئے کیوں آئے اور کیسے آئے یہ ایک لمبی بحث ہے جسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں نے جب جب چوک پر غلیظ کپڑے دھوئے بوٹوں کی چاپ اور میرے عزیز ہم وطنوں کے شکنجے نے ہمیں جکڑا ہے۔ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، فوج کو بار بار لانے میں کچھ نہیں تو نصف حصہ توسیاستدانوں کا بھی ہے۔ سیاسی خلفشار کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی عوامی مایوسی فوج کو دعوت دیتی رہی، ایسے میں بڑے بڑے جمہوری قائدین فوج کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ خیر پہلے تو جید عوامی قائدین اپنا سیاسی شجرہ جی ایچ کیو سے جوڑنے کو باعث فخر گردانتے تھے اور برملا اظہار بھی کرتے تھے، اب فرق یہ پڑا ہے کہ دور آمریت میں فوج کا ساتھ دیکر فائدے حاصل کرنا اور بعد میں بھیگی آنکھوں اور گلوگیر آواز میں قوم سے معافی مانگنا تمثیل کی اگلی قسط ہوتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے ہر جماعت میں ایسے سیاستدانوں کی بھاری کھیپ موجود ہے کہ ایک بھاری بھرکم قومی اسٹیبلشمنٹ پارٹی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ حضور، ہم نے ماضی سے سبق نہ لینے کی قسم اٹھا رکھی ہے سو غلطیوں کا دھرانا معیوب نہیں، اداکار تبدیل ضرور ہوئے ہیں مگر کھیل وہی پرانا ہے، بقول سلیم کوثر
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
پس آئینہ میرا عکس ہے سر آئینہ کوئی اور ہے
فیصل واوڈا، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، حریم شاہ اور میرا کو خبروں میں رہنے کا فن خوب آتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ تینوں سیاسی سورما سوشل میڈیا پر ٹرینڈ میکرز میں شامل ہیں، گو کہ امان اللہ اور ببو برال جگتوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں مگر ایسی دانشورانہ، پرمغز اور سنجیدہ جگتیں بھلا ان کے بس میں کہاں، معاشرہ مجموعی طور پر تنزل کا شکار ہے، جہل شہرت کی بلندیوں پر ہے اسکے باوجود کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسے ایسے عجائبات بھی وزیر بن جائینگے۔ اس سے زیادہ عجوبہ فیصل واوڈا کو دی جانیوالی سزا ہے، دو ہفتے کسی پروگرام میں نہ آنے کی ہدایت، حکومت کے انصاف کو داد دینے کو دل چاہتا ہے، اس سے بہتر اخلاقی جرات کا مظاہرہ تو پیمرا نے کیا، پروگرام پر ساٹھ دن کی پابندی تو لگائی۔
ستر سالوں میں آمریت و جمہوریت، دونوں عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہیں، حکومتیں اسکا دوش اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ حکومت پر الزام ڈالکر اپنی اپنی نااہلی چھپاتے رہے۔ بہرحال یہ تو طے ہو گیا کہ مقتدر اشرافیہ اس سے پہلے کبھی ایک پیج پر اتنی نہ تھی جتنی آج ہے، سر آئینہ اور پس آئینہ میں فرق مٹ چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور سرکار یکجان و قالب، اگرچہ گزشتہ حکومتیں بھی ایسے دعوے کرتے رہیں اور ھٹنے کے بعد الزامات اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو دیتی رہیں۔ مگر اب عملی صورتحال یکسر مختلف نظر آتی تھی، فاصلے مٹ چکے، قربتوں کا موسم ہے۔ امیر خسرو نے کیا خوب کہا ہے
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
(ترجمہ: میں تو بن گیا اور تو میں، میں تن ہوں اور تو جاں، پس اسکے بعد کوئی کہہ نہیں سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور)
جناب من سوال یہ ہے کہ اگر یہ تجربہ بھی ناکام ہو گیا تو کیا ہو گا، سیاستدان تو کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لینگے، بیچاری اسٹیبلشمنٹ کیا کریگی؟