زندگی جس رفتار سے چل رہی ہے اسی رفتار سے ادب بالخصوص شاعری میں بھی ارتقائی عمل جاری و ساری ہے، ادب میں ارتقا فطری عمل ہے۔ اسلوب کے ساتھ ساتھ موضوعات میں بھی زمانے کی جھلک نظر آتی ہے۔ زندگی کا ہراحساس شاعری میں محسوس ہوتا ہے۔ موجودہ شاعری میں ارتقا اور انقلاب یا پھر بغاوت روشی کی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ قصدہ، مقفی نظم،آزاد نظم، نثری نظم،مردف نظم، غزل (جدید) اور غزل نثری جدید تجرباتی شکل میں موجود ہیں۔ شاعری مسلسل پھیلتا ہوا فن ہے۔ شعری تجربات کسی خاص سانچے یا موضوع کا پابند نہیں۔ شاعری زندگی اور اس کے تقاضوں اور ضرورتوں کے ساتھ ساتھ سفرکرتی ہے۔ عصرحاضر میں روز ہم شعری تجربات سے گزرتے ہیں۔شاعری میں نئی بحریں ایجاد ہوچکی ہیں تاہم آج بھی پرانی بحروں کو نئے انداز میں بیان کیا جا رہا ہے۔شمس الرحمان فاروقی تنقیدی افکار میں لکھتے ہیں تجربہ کرنے والا شاعر، چاہے وہ ناکام ہی کیوں نہ ہوجائے، محفوظ راہ اختیار کرنے والے شاعر سے عام طور پر بہترہوتا ہے تاہم تجربے کے لیے بھی علم شرط ہے۔شاعری میں مشق سے نئے معنوی ابعداد پید ا ہوتے ہیں۔
عکسہ صدیقی کی پہلی تصنیف بارش،مٹھو اور محبت میں ہمیں وہ سارے تجربات نظرآتے ہیں جن کی روشنی میں عکسہ صدیقی اردو شاعری میں اپنا منفرد عکس جما رہی ہیں۔ عکسہ صدیقی کا لب ولہجہ اور تیور بتا رہے ہیں کہ ان کی شاعری کسی صورت پابندسلاسل نہیں ہے۔
عکسہ صدیقی کو کسی ادبی پروگرام میں نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا ہے۔میرے لیے نیا نام اور ان کی کتاب نیا حوالہ ہے۔ان کا اولین مجموعہ بارش، مٹھواور محبت 18مئی 2018کو نیک تمناوں کے ساتھ موصول ہوا۔کہی بار اس پر لکھنے کی کوشش کی لیکن کوئی نہ کوئی معذرت آڑے آئی۔خیر عکسہ صدیقی کے اولین مجموعہ میں شامل شاعری کی ہیت اور تکنیک اس قدر مختلف ہے کہ پہلی نظر میں یہ طے کرنا خاصا مشکل ہے کہ ان کی شاعری کو کس درجے میں رکھا جائے یا اسے کیا نام دیا جائے۔ان کی شاعری اور خاص کر نظم میں اس قدر خیالات کی نیرنگی موجود ہے کہ اسے کوئی نام دینا انتہائی مشکل ہے۔کیوں کہ بغیر وزن کے بھی ان کی شاعری میں غنائیت اور روانی موجود ہے۔شاعرہ نے نظم میں کمال مہارت سے کئی خیالات کوبڑی خوبصورتی سے پرویاہے۔
عکسہ صدیقی کی تمام ترتخلیقات ان کے ذاتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہیں۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں زندگی سب سے بڑی معلم ہوتی ہے۔ عکسہ صدیقی کا تعلق کراچی سے ہے لیکن ان کی کتاب 2018 میں دہلی،بھارت سے شائع ہوئی ہے۔ صفحات پر مشتمل کتاب میں 801 نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کے سرورق کو دیکھا جائے تو اس پر روشنی تھامے مشہور یونانی کردار ہیرو کی تصویر ہے۔ ہیرو جو اپنے عاشق لینڈر کو اندھیری رات میں راستہ دکھانے کے لیے روز روشنی لے کر سمندر کنارے آتا ہے اور جب طوفان سے روشنی بجھ جاتی ہے تو لینڈر سمندر میں بھٹک کر ڈوب جاتا ہے۔
عکسہ صدیقی بھی اپنی کتاب میں محبت کی روشنی لیے کھڑی نظرآتی ہیں۔ عکسہ صدیقی کا نظریہ محبت کا نظریہ ہے ان کی شاعری اعتماد سے بھرپور ہے۔ ان کے موضوعات میں خاصا تنوع ہے اور محبت کے رنگ بکھرے ہیں۔ ان کی شاعری میں قدرت سے محبت کے رنگ بھی عیاں ہیں جیسے بادل، برسات کا چاند، پانی، قدرت، کپاس کا پھول وغیرہ اور کہیں مادی محبت کی جانب جیسے پیار،محبت،دل،آنسووں کی دھڑکن،جدائی، آجاو اور وہ اس غم جاناں کو بڑی خوبصورتی سے غم دوراں کے خالق میں ڈھال کرعشق کو اس کے عرفان تک لے جاتی ہیں۔نظم آگ میں لکھتی ہیں زندگی محض ایک چنگاری اور محبت ہوا کا ایک جھونکا۔ اس میں شاعرہ نے بہت خوبصورتی سے زندگی کے ارتقا، زندگی کی وسعت اور بقا کے لیے زندگی کو معنی خیزسانس کا منبع قرار دیتے ہوئے اسے ایک چنگاری سے موسوم کیا ہے۔کتاب میں شامل ہرتحریر،نظم کسی نہ کسی حوالے سے زندگی اور محبت کے درمیان مکالمہ قائم کرتی ہے۔ان کی شاعری الفاظ کی محتاج نظر نہیں آتی۔
عکسہ صدیقی کو چھوٹی بحر یعنی مختصر نظم میں بھی کمال حاصل ہے، آگ، آنسووں کی ڈھرکن،ارحم الراحمین، بادل،بازیچہ،بے رنگ،چکورآنکھیں،دل،دستک،گرما گرم تقاریر،ہزارچاہت سے پالا، ہیرا،حباب، جھوٹ،جدائی،کاجل بہہ نہ جائے،کانٹے دل کے،کسک،خاک،خاموش،چراغ،کحل دل،ماہی، میثاق، مستمر،موجیں، نغمہ وصل،نشہ، بوجھ پہلی، عقدہ، قندِمکرر،پیار،پوجا،قلندر،اب کی خوشبو، روح،روشی، ساتھی،شگون، مہک، سوکن اورجام سفال کمال نظمیں ہیں،، بڑی نظموں میں آب بقا، آجاو، انجام، اپنی کھوج میں، عرق الفت،ارواح گل،عطائے کرم نوازش نورانی،بندگی،بازگشت، بازی گری، بزم، بازیاب، بہرہ، ابوالعجبی، چپستان، دانہ چوری، دبستان عشق کی طالب،کترن کترن، ماروا، نینوں کی جل پری سمیت دیگر طویل نظموں میں بھی کمال مہارت کے ساتھ محبت اور زندگی کا اظہارکیا گیا ہے۔
عکسہ صدیقی کی فکری زمین پرجوندرت یا سنجیدگی ہے وہ اپنی موجودگی درج کرانےمیں کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔ان کا فنی پہلو اس قدر منفرد ہے کہ انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ سر شارصدیقی حرف اول میں لکھتے ہیں عکسہ صدیقی کی شاعری کو میں محتاج الفاظ میں تجرباتی شاعری کہوں گاکہ عکسہ کی تکنیک میں لکھ رہی ہیں کہ ان کے اسلوب کو فوری طور پر کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
معروف افسانہ نگار شموئل احمد عکسہ صدیقی کی شاعری کو نئی آواز اور نئے لب ولہجے سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی شاعری اسلوب کی سطح پر تازہ کاری کا احساس دلاتی ہے۔ ڈاکٹر اویناش (بھارت) کہتے ہیں عکسہ نہ صرف فکری بلکہ فنی سطح پر بھی قارئیں و نقاد کو متوجہ کرنا چاہتی ہیں اور اس چاہت میں لفظ لفظ کی اکائی قائم کرکے دوسروں سے الگ نظرآنے کے لیے لفظ لفظ کے مابین بھی تجریدی برتاو سے کام لیتی ہیں۔عکسہ صدیقی کی مروجہ رحجان سے کنارہ کشی کو کس فراخ دلی سے قبول کیا جاتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم عکسہ صدیقی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شاعری کسی مروجہ اصول و ضوابط کی پابند نہیں ہے۔ عکسہ صدیقی نوجوان شاعرہ ہیں ان کی پہلی کتاب بارش، مٹھواور بارش پڑنے سے عصرحاضر کی شاعری میں ارتقا اور انقلاب کو باخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
کامران مغل، جرنلسٹ، کراچی