اسلم بھائی خوش رہیں !! (عامر اسحاق سہروردی)

اسلم بھائی خوش رہیں !!
نام والوں کی کہانیا ں تو سب ہی لکھ ڈالتے ہیں ، ان کی عادات سے لیکر ان کی خواہشات تک سب کچھ بہت دلچسپی سے لکھا اور پڑھا بھی ۔ مگر اسلم بھائی کمال کا انسان تھے۔ ایک ایسے پیشے سے وابستہ جس کی بنیاد جھوٹ پر ہو لیکن اسلم بھائی صرف سچ بولتے تھے ۔ آپ ان کے پاس بیٹھیں تو آپ کو کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ آپ کسی موٹر میکینک کے پاس بیٹھے ہیں۔ ان کی گفتار صاف ، پوشاک ستھری اور ایثار باکمال تھا۔ ان کے پاس زیادہ تر لوگ پیسے والے آتے تھے لیکن اسلم بھائی سب کے اسلم بھائی تھے ، ان کی پاس کسی کیلئے انکار نہیں تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے کیونکہ وہ اندر سے بہت بڑے انسان تھے۔
مرسڈیز کار چلانے کا شوق مجھے ہمیشہ سے ہے ، جب دو ہزار نو میں ہل پارک کے قریب روہیل کھنڈ سوسائیٹٰی میں آکر رہا تو اس شوق نے دوبارہ سر اٹھایا ۔ ایک دن عالمگیر مسجد کے پاس ایک گلی میں ایک بہت پرانی مگر شاندار مرسڈیز کھڑی دکھائی دی شوق کھینچ کر وہاں لے گیا ۔ وہاں ایک دھان پان سا شخص سر پر سفید ٹوپی پہنے ایک لڑکے کو ہدایات دے رہا تھا لڑکا گاڑی کے کے نیچے تھا ، لڑکا مستقل غلطی کر رہاتھا لیکن استاد کے چہرے پر نہ تو ناگواری کا احساس تھا اور نہ ان کے لبوں پر گالی تھی۔۔ ابے یار تیری سمجھ میں اتنی آسان سی بات کیوں نہیں آرہی ،،اسلم بھائی بولے ،،بس استاد۔۔ اچھا چل میں خود کرتا ہوں استاد نے کہا اور صرف کہا نہیں کر کے دکھا دیا۔ پھر کچھ دیر بعد میری جانب توجہ کی اور کہنے لگے جی بھائی آپ کا کیا مسئلہ ہے ، جی وہ مجھے ایک مرسڈیز خریدنی ہے ، میں گویا ہوا ،،دیکھو بھائی یہ سفید ہاتھی ہے پہلے بھی کبھی رکھا ہے ،،جی جی اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ آدمی کیسا عجیب ہے اپنے گاہک کو خوفزدہ کر رہا ہے ۔
پھر میں کچھ دن بعد دوبارہ گیا تو کرسی پر بیٹھے تھے ، مجھے دیکھا سلام کیا اور اپنی کرسی پر مجھے بٹھا کر خود ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئے ، مجھ سے اس دن نام پوچھا اور پھر ساری زندگی مجھے عامر بھائی ہی کہا ۔ کچھ دن بعد میں نے ان کے توسط سے پہلی مرسڈیز خریدی جو انیس سو اٹھتر کا ماڈل تھا انہوں نے مجھے کام کرنے کے بعد لے جانے کی اجازت دی ، کچھ دن بعد دوبارہ فون کیا اور کہا کہ ایک موقعے کی گاڑی ہے لے لیں۔ میں نے گاڑی دیکھی مجھے اچھی نہیں لگی ،،ان کو بتایا تو بالکل ناراض نہیں ہوئے۔ پھر میں روزانہ ایک چائے اسلم بھائی کے پاس پینے لگا۔ وہ مجھے کئی نوابوں ، اداکاروں بھٹو صاحب سمیت کئی سیاستدانوں اور کئی معروف پیروں کی گاڑیوں کے قصے سناتے ۔اسی دوران میں نے ان سے ایک اور مرسڈیز خرید لی ۔
کئی لوگ اسلم بھائی سے کام کے دوران بھاؤ تاؤ کرتے ۔ لیکن میں نے اپنی دونوں گاڑیوں کے کام کے دوران دیکھا کہ وہ خود کبھی پلازہ اور کبھی ناظم آباد اور کبھی شیر شاہ پارٹس کیلیئے جاتے اور کبھی مجھ سے کرایہ نہیں مانگتے ۔ جب بھی میں جاتا تو صاف کرسی ملتی ۔
اگر آپ ان کو فون کریں تو انتہائی شائستہ آواز میں سلام سننے کو ملتا تھا۔ ان کے پاس پہنچو تو کوئی نہ کوئی بیٹھا ملتا ، کبھی کوئی پی آئی اے کا افسر ، تو کبھی سول ایوی ایشن کے بیگ صاحب ، کبھی پی ٹی وی کے عباسی صاحب سے ملاقات ہوتی تو کبھی ایرانی ہوٹل والے ۔
اسلم بھائی کے گیرج پر مرسڈیز کمیونٹی میں سے کوئی نہ کوئی ہر وقت موجود رہتا۔ اسلم بھائی سے میں نے آخری گاڑی دو ہزار چودہ میں خریدی جو انہوں نے بیگ صاحب سے مجھے دلوائی یہ انیس سو ستر ماڈل کی مرسڈیز تھی ۔ میرا ارادہ اس کو بنانے کا تھا لیکن میں بیروزگار ہو گیا ۔ اور یہ گاڑی بیچنی پڑی۔
کمال کے آدمی تھے اسلم بھائی میری نوکری ختم ہونے کا دکھ انکو بہت زیادہ تھا ۔ کئی مرتبہ مجھ سے کہا عامر بھائی پریشان نہ ہوئیے گا آپ کا بھائی موجود ہے ، گاڑی کوئی بھی کام ہو تو بالکل فکر مت کیجیئے گا ۔ ان کا یہ کہنا میرے لئے بہت تھا۔ کچھ دن بعد میں گلشن اقبال شفٹ ہو گیا ۔ اب میں اسلم بھائی سے دور ضرور ہو گیا تھا لیکن ہر دس پندرہ دن بعد میں فون کرتا وہ زور دار سلام کے بعد ہمیشہ کہتے ارے عامر بھائی کہاں ہیں ۔ اتنے دن سے آئے ہی نہیں ، اور پھر میں ہر چند مہینے بعد ان کے پاس جاتا ، چائے اور پراٹھہ کھاتا اور خوب دیر تک ان سے گپ لگاتا ۔ان سے کئی مرتبہ سنے ہوئے واقعات نئی تندہی کے ساتھ سنتا اور ان کو یہ احساس نہ ہونے دیتا کہ مجھے معلوم ہے۔ اگست میں میری ان سے آخری ملاقات ہوئی جب میرا دل چاہا کہ میں ایک پرانی مرسڈیز خریدوں انہوں نے میری بات ایرانی ہوٹل والے فرحت بھائی سے کرائی میں نے سودا ڈن کیا اور امریکہ چلا گیا۔
واپسی پر کچھ بیمار رہا ان سے بات نہ ہوئی دس دن پہلے ان کو فون کیا معزرت کی کہ بیمار تھا اور پیسے بھی ختم ہو گئے تھے ۔ کہنے لگے یار عامر بھائی بس اللہ آپ کو صحتمند رکھے ۔ فرحت بھائی نے بھی گاڑی نہیں بیچی تھی کہ رہے تھے کہ جب سودا ہو گیا تو ان کو ہی بیچوں گا ۔ صرف میں نہیں اسلم بھائی کے سارے گاہک ان کے دوست تھے ، ان سے پیار کرتے تھے ۔
آج عمران کا واٹس ایپ آیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے سفر آخرت کر لیا ۔ اسلم بھائی اتنی بھی کیا جلدی تھی ، یار آپ کوئی ہمارے میکینک تھوڑی تھے ، آپ تو میرے بھائی تھے، آپ سے تو خوب سیکھا ، اور آپ نے یہ بھی سکھا دیا کہ میکینک پر بھی بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔دیکھا ایک شخص کیسے تبدیلی پیدا کرتا ہے ۔ اسلم بھائی اللہ آپ کے درجات بلند کرے ، آپ کے صغیرہ اور کبیرہ گناہ معاف کرے۔ یار اسلم بھائی مجھے یقین ہے کہ جنت میں آپ شاندار مرسڈیز چلا رہے ہونگے ۔ اور بڑے بڑے میکینک پیدل آپ کو صرف دیکھ رہے ہونگے ۔(آمین)

(عامر اسحاق سہروردی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں