گدھے کی طرح دوڑتے گھوڑے (سید محمد مدثر)

پڑھائی میں ہمیشہ سے ہم نالائق تھے،یہ میں نہیں میرے ابا کہتے ہیں۔ میرے خیال میں تو
I am a true genius
اسی خیال میں بچپن میں ایک ٹائم ایسا آیا کہ خود کو Evil Geniusکہنا اور سمجھنا شروع کردیا
وہ تو بھلا ہو پڑوس کے ایک بھائی کا۔ جنہوں نے بتایا کہ بھائی Evilتو شیطان ہوتا ہے۔

ہائے۔۔ بس پھر اس دن سے Evil ہٹاکر ہم نے اپنے آپ کو صرف genius کہنا شروع کردیا۔ لیکن اتنا زیادہ Genius ہونے کے باوجود بھی ٹیچرز نے کبھی اچھے نمبرز نہیں دیئے۔ ہم سمجھے کہ ٹیچرز بھی بھائی کی قابلیت سے جلتے ہیں۔ ٹیلنٹ سمجھتے نہیں۔ میرے Geniusسوالوں کے جواب دے نہیں پاتے۔ اس لئے “خُنس”میں نمبر کم دیتے ہیں۔
ویسے تو میں کلاس میں سوال بھی زیادہ نہیں کرتا تھا۔ پیچھے والی ڈیسک پر پوری کلاس کے دوران دوستوں کے ساتھ شغل لگی رہتی کہ کیا سوال کرکے ٹیچر کو تنگ کرنا۔
لیکن ہمارے اتنے خیال کے باوجود بھی ٹیچرز نے کبھی اتنا ظرف نہیں دکھایا کہ کچھ اچھے نمبرز دے دیں۔ میں نے سوچا چلو کوئی نہیں۔ بورڈ کے امتحان آنے دو۔ وہاں ان ٹیچرز کی تھورا ہی چلے گی۔ وہاں تو ہم جھنڈے گاڑیں گے۔ اسی انتظار میں نویں میں پہنچ گئے۔ بورڈ کے امتحان دیئے تو وہاں بھی نتیجہ وہی آیا۔ تب سمجھ آ یا کہ سالا پورا سسٹم ہی خراب ہے۔
خیر۔ پھر کبھی “سی”تو کبھی پھر “سی”گریڈ ہی لے کر کسی طرح انٹر پاس کرلیا۔ کیوں کہ انٹر پری انجینئرنگ سے کیا۔ تو توبہ کرلی کہ بھائی کچھ بھی بن جائیں گے انجینئر نہیں بننا۔
اسی چکر میں انجینئرنگ کے علاوہ ساری یونیورسٹیز کے سارے ڈیپارٹمنٹس میں اپلائی کردیا۔
اس لئے نہیں کہ مجھے کچھ بننا تھا۔ بلکہ اس لئے کیوں کہ بوائز اسکول اور بوائز کالج میں لونڈوں کے منہ دیکھ دیکھ کر تنگ آچکا تھا۔ اور اب کچھ “تبدیلی” چاہتا تھا۔ بس اسی آس میں ساری یونیورسٹیز میں اپلائی کردیا کہ بھیا داخلہ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں ملے کم سے کم “لکڑیاں” تو ملیں گی۔
بھلا ہو ہماری قسمت کا جس نے ہمارے نام کا قرعہ ماس کمیونی کیشن کے ڈیپارٹمنٹ میں کھلوادیا۔ اب یونیورسٹی میں ہم نے کیا کیا جھنڈے گاڑے؟ وہ پھر کبھی بتائیں گے۔
ابھی پوائنٹ کی بات پرآتے ہیں۔تواس طرح صحافت پڑھ کر ہم صحافی بن گئے۔ صحافت میں عملی قدم رکھا تو پتا چلا کہ ہم تو اپنے آپ کو ہی جینیس(نالائق) سمجھتے تھے۔ یہاں تو ہم سے بھی بڑے بڑے پڑے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہم نے سوچا کہ بھائی یہ تو اندھوں میں کانا راجا والی بات ہوگئی۔ یہی سوچ کر ہم اندھوں میں اپنے آپ کو کانا سمجھ کر راجا بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ ایک دو سال تو اسی خوش فہمی میں گزر گئے کہ راج گدی اب ہاتھ آئی تب ہاتھ آئی۔ پھر کچھ کچھ سمجھ آئی کہ بھائی یہ اندھے ضرور ہیں۔ لیکن پاگل نہیں جو کسی بھی کانے کے کہنے پر چلنے لگ پڑیں۔
ان اندھوں کو تو سوال کرنے کی بیماری ہے۔ ہر بات پر سوال کرتے ہیں۔ وہی سوال جو بچپن میں ہم اپنے ٹیچرز سے نہیں کرتے تھے کہ وہ کہیں برا نہ مان جائیں۔ لیکن یہ لوگ تو کیا سی ایم کیا پی ایم۔ کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ ہر کسی سے بس سوال کردیتے ہیں
یہ بھی نہیں سوچتے کہ بھائی اگلا بندہ برا بھی مان سکتا ہے۔تب ہی تو کبھی وکیلوں سے مار کھاتے ہیں۔ تو کبھی پولیس والوں سے پٹ کر آتے ہیں۔
مختصراً۔ یہ سارے وہ گھوڑے ہیں جو خبر کی تلاش میں گدھوں کی طرح دوڑے جارہے ہیں۔ بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ جو لگی ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کہیں اس دوڑ میں سچ کہیں پیچھے تو نہیں چھوٹ گیا۔ وہی سچ جو لوگوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
یہی تو ہمیں سکھایا گیا ہے۔ یہی تو ہمیں پڑھایا گیا ہے۔ لیکن اب نوبت یہ آگئی ہے کہ مختلف چینلز میں کام کرتے ہوئے چودہ سال بیت چکے ہیں۔اور میں اپنے ایک سینئر کی اس بات کو کسی صورت جھٹلا نہیں سکتا کہ ہمارے ملک میں چینلز لوگوں تک خبریت(سچ) پہنچانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں