سر یہ رقم رکھ لیں کام آئے گی۔با وردی پولیس اہلکار نے صحا فت کے ایک ادنیٰ سے طالبعلم کو نوٹوں کا لالچ دیتے ہوئے اپنا گناہ چھپانے کی کو شش کی تو اسے یہ سن کر شرمندگی سامنا کرنا پڑا کہ یہ رقم اپنے پاس رکھو اور آئندہ ایسی حر کت کرنے سے بھی گریز کرنا۔
ہوا کچھ یوں کہ رات کے پہر صحا فت کے طا لبعلم نیند کےمزے لے رہے تھے بے رحم فون کی تیز رنگ ٹون نے نیند سے بیدار کر دیا۔نیند کے عالم میں کال ریسیو کی توایک دوست نے سہمے لہجے میں کہا کہ بھائی پولیس کے چنگل میں پھنس گئے ہیں،نکلنے کا کوئی بندو بست ممکن ہے کیا ؟
یہ سنتے ہی آنکھیں یک دم کھل گئی،۔خدا خیر کرے اتنی رات کیا ماجرہ ہو گیا۔
فون پر ہی تفصیل لینا چا ہی تو پتہ چلا،رات کے اندھیرے میں با ئیک سوار ان یاروں سے ایک جرم سرزد ہو گیا ہے،اس لئے گشت پر مامور پولیس اہلکاروں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کے تنبیہ کی کہ آئندہ جرم مت کرنا۔
(ستیا ناش ہو قانون شکنی کی عا دت،لالچ اور بد عنوانی کا کہ جس کے چکر میں نہ جانے کتنے لوگ گھن چکر ہو گئے)۔
البتہ بے چا رے نے بے بسی کے عالم میں آپ بیتی بتا نا شروع کردی کہ صاحب لوگوں نے صرف تنبیہ نہیں کی،بلکہ جیبوں میں موجود رقم اور موبائل فونز بھی اپنے قبضے میں لے کر رفو چکر ہونے کا حکم صادر کیا۔
اب آپ ہی بتاؤ ہم کیا کریں ؟ رقم کی تو خیر ہے،موبا ئل فون مہنگا والا ہے،اس میں موجود احباب کے رابطہ نمبرز بڑی مشکل سے حاصل ہو ئے ہیں۔
تو بھائی کچھ ہوسکتا ہے تو پلیز کریں۔
اس وقت بھلا کیا کرسکتے تھے،پہلے تو اسے یہ احساس دلایا کہ بھائی با ئیک چلاتے وقت تمام مطلوبہ چیزیں اپنے سا تھ رکھو اور جرم کا ارتکاب کرنے سے گریز کرو،ورنہ چھوٹا سا جرم بھی بڑی مصیبت میں ڈال سکتا ہے۔ یہ کہہ کر اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کی۔اسے تسلی دی اور کہا کہ یاری نبھانے کے لئے جو درست طریقہ ہوگا وہ اپنائیں گے۔ ساتھ ہی اسے تھانے پہنچنے کا مشورہ دیکر فون بند کردیا۔
گھر سے باہر نکل کر بائیک۔اسٹارٹ کی اور تھانے پہنچ گیا،وہاں پہنچ کر صاحب لوگوں سے ملاقات کی، کچھ فاصلے پردوستوں کو بھی افسردہ کھڑا دیکھا۔(اتنی جلدی پہنچ گئے تھانے،،،،انسان ہو یا کوئی اور مخلوق ؟؟؟ ہاہاہا ازراہ مزاق ان کا موڈ صحیح کرنے کے لئے کہہ دیا)۔
بہر حال تھانے میں پریشان حال دوستوں سے اس بے تکلفی کے سا تھ ملنے پر صاحب لوگ تھوڑا ناراض ہوتے نظر آئےاور پوچھنے لگے کون ہو بھائی ؟ کیا کام ہے؟ کس سے ملنا ہے؟
ان سے مصا فحہ کیا اور صحافت کے طالبعلم نے اپنا ادنیٰ سا تعارف کروایا تو ان کے لہجے میں تھوڑی نرمی آئی۔ میں نے گشت پر مامور پولیس موبائل اور اہلکاروں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر ڈالا۔
خواہش کااظہار کرنا تھا کہ اتفا قیہ طور پر وہی پولیس موبائل آکر رکی (خواہش کی فوری تکمیل،، کچھ اور ہی مانگ لیتے،،،،ایسے وقت میں یہ خیال ذہن میں آتا ہے)۔
بہر جال،رات کے سنا ٹے میں صاحب لوگ بوٹ کی تھر تھراتی آواز کے ساتھ قریب آئے تو ان سے مصا فحہ کیا اور مختصر تعارف کروانے کےبعد یاروں کے ساتھ پیش آنے والے ماجرے سے متعلق معلومات لینے کی کوشش کی۔اتنے میں پولیس موبا ئل کی فرنٹ سیٹ سے اتر کر ایک صاحب آئے، یاروں کے جرم سے آگاہ کیا اور اپنی دریا دلی کا بھی تذکرہ کیا کہ کس طرح صاحب لوگوں نے انہیں تنبیہ کرنے کے بعد رہائی کا پروانہ عطا کیا (صحافت کے طالبعلم نے ان کا شکریہ ادا کیا)۔ ساتھ ہی ساتھ ان موبائل فون اور رقم کی حوالگی کی بھی گزارش کی تو اہلکار فورا حواس با ساختہ ہوگیا،کونسی رقم،کونسا موبائل،ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا یہ ہم پر الزام لگا یا ہے۔
سامنے کھڑے یار لوگوں کو میں نے ایک نظر دیکھا اور قریب بلا کر حقیقت بیان کر نے کا کہا،جسے سن کر اہلکار ائیں،بائیں،شائیں کرنے لگا،دوستوں نے پھر گزارش کی مہربانی کر کے موبائل عنا یت کردیں ۔
یہ سن کر صاحب کو میں نے بھی خصوصی درخوا ست کی۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ وہ موبائل دوسرا اہلکار لے کر آگیا،کہنے لگا صاحب یہ موبائل فون پولیس وین سے ملا ہے،شکر ہے شکر ہے،میں نے کہا تھا نا کہ مجھے نہیں معلوم موبائل فو ن کا۔صاحب نے خو شی بھرے لہجے میں جتانے کی کو شش کی۔دوست بھی خو ش ہو گئے کہ ان کے مو با ئل فونز وا پس مل گئے ۔
اس کے بعد گلے میں ہا تھ ڈال کر صا حب جی ( صحا فت کے طا لبعلم )کوسا ئڈ میں لے گئےاور کچھ نوٹ جیب سے نکا ل کر ہاتھ میں رکھنے لگے کہ صاحب یہ رکھ لو کا م آئیں گے۔ اس کےہا تھ کو(صحا فت کے طا لبعلم نے) وہیں رو ک کر کہا کہ ،،(اللہ پا ک کے فضل و کرم سے مجھے ایسی رقم کی ضرورت نہیں ، اسے اپنے پاس ہی رکھو ،اور برا ئے مہربانی آئندہ ایسی حرکتو ں سے گریز کر نے کی بھی کو شش کرو۔ یہ کہہ کر گھر کی طرف نکلے اور یا ر لوگوں کو بھی تنبیہ کر کے گھر روا نہ کیا۔
قا بل غو ر بات یہ ہے کہ ہرکسی کو قا نون پرعملداری یقینی بنا نی چا ہئےاور پولیس جیسے اہم شعبے میں تعینات اہلکاروں کو اپنا اس طرح کا رویہ تبدیل کرنا چاہیئے ،ورنہ اسی طرح عوام چھو ٹے چھوٹے جرم کا ارتکاب کرکے بڑے جرائم میں ملوث ہوجا ئیں گے۔یہ رویہ کئی طرح کی قا نون شکنی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔