مداوائے غم

تحریر: افروز عنایت.

عبد الرحمن  نے اپنے آس پاس دیکھا سب کے چہروں پر اداسی اور اپنوں سے بچھڑنے کا غم عیاں  تھا، اس کے پاس بیوی کو ڈھارس دینے کے لئے الفاظ نہ تھے اس کے دونوں نو عمر بیٹوں کو بے دردی سے  شہید کردیا گیا تھا ، وہ بہادر تھا لیکن آج کے زخموں  نے اسے بالکل نڈھال کر دیا تھا، اسکی آنکھیں برس پڑیں، اسکے آنسوؤں کے چند قطرے اسکے ہاتھ میں تھامے اپنی بیوی  کے ہاتھ پر پڑے تو اس نے لرزتی آنکھوں سے شوہر کی طرف دیکھا جو صبح سے  اسے تسلی دیتا آرہا تھا ، شوہر کی حالت پر کانپ اٹھی وہ  اس کے زخموں پر کیا زخم رکھتی ابھی شوہر کو  تسلی بھی نہ دے پائی تھی کہ سامنے  بے خبر پڑی بچی کی دبی دبی سسکیوں نے ان کی  توجہ اپنی طرف مبذول کروادی۔

وہ اپنا درد بھلا کر اس بارہ تیرہ سالہ بچی کی طرف لپکی جو خوف سے کانپ رہی تھی زینب نے اپنی پھٹی تار تار اوڑھنی کو اسکے گرد لپیٹ دیا اور پیار سے اسے اپنی بازوں میں سمیٹ لیا بچی تھوڑا گھبرائی لیکن شاید ممتا جیسی چاشنی محسوس کرتے ہی زینب سے لپٹ کر دھاڑے  مار مار کر رونے لگی۔

سامنے بیٹھی خاتون جو اسی بچی ساجدہ کے محلے کی تھی اس سے معلوم ہوا اس معصوم کا تو پورا کنبہ ظالم ہندوؤں کی تلواروں اور ہوس کا نشانہ بن چکا تھا ماں، دو بڑی بہنیں، کچھ بھی نہ بچا تھا نہ جانے وہ کیسے انکی نظروں اور ہوس سے بچ گئی تھی۔

زینب نے اسے ایک ماں کی طرح گلے لگایا دونوں اندر سے زخمی تھیں۔ لیکن اب یہ ایک دوسرے کے زخموں کا مرہم تھیں، تمام راستے میں بکھری بے گورو کفن لاشیں ادھوری داستان ہجرت کو بیان کر رہی تھی۔

انکا لٹا پٹا قافلہ پاکستان پہنچا تو انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ زندہ سلامت منزل پر پہنچ گئے ہیں کھلی آزاد فضاؤں میں سب نے رب کا شکر ادا کیا اور سجدہ ریز ہوگئے، زخم گرچہ ابھی باقی تھے لیکن ان زخموں کو وطن عزیزکی سوندھی مٹی نے دھو دیا تھا

عبدالرحمان، بیوی اور ساجدہ کے ساتھ سکھر میں اپنے دوست اصغر کے پاس پہنچا، جس نے انہیں حقیقی بھائیوں کی طرح نہ صرف  سہارا دیا بلکہ زندگی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لئے مدد بھی دی۔

اس دیس کی سوندھی مٹی میں ان کے زخم تو کافی حد تک مندمل ہو چکے تھے لیکن وہ ان اپنے بچھڑنے والوں کو  بھلا نہ پائے تھے ۔ زینب اور عبدالرحمن نے ساجدہ کو حقیقی  بیٹیوں سے بڑھ کر پیار دیا۔اور اسی طرح زندگی گزرتی رہی۔

14 اگست کا خوبصورت دن تھا ان سہانی گھڑیوں میں زینب کی بیٹی ساجدہ کی شادی اصغر کے بیٹے سے ہورہی تھی، ساجدہ کے دامن میں گرچہ اداس کردینے والی یادیں تھی لیکن دوسری طرف اسکے ساتھ بہت سے پیار کے رشتے  تھے جنہوں نے آزاد فضاؤں میں اسے مضبوط سائبان عطا کیا تھا جو آج اس کے غم کا مداوا بن گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں