۔۔۔
نام *عبدالمجید*، *سالکؔ* تخلص۔ ۱۳ دسمبر ۱۸۹۴ء کو بٹالہ ، ضلع گورداس پور* میں پیدا ہوئے۔بی اے لاہور میں کیا۔ ۱۹۱۴ء میں پٹھان کوٹ سے رسالہ *’’فانوس خیال‘‘* نکالا جو ایک سال جاری رہا۔۱۹۱۵ء کے اواخر میں *’’تہذیبِ نسواں‘‘* اور *’’پھول‘‘* کے اڈیٹر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں *’’زمیندار‘‘* کی ادارت سنبھالی۔ ۱۹۲۷ء *مولانا مہر* کی معیت میں *’’انقلاب‘‘* کا اجرا کیا جوتیس سال تک جاری رہا۔ شعرگوئی، ادب، تنقیداور صحافت مشاغل رہے۔ *حیات بخش رساؔ* سے تلمذ حاصل تھا۔ *۲۷؍ ستمبر۱۹۵۹ء* کو *لاہور* میں انتقال کرگئے۔ سالک کا لگاؤ نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ان کے شعری مجموعہ کا نام *’’رہ و رسم منزلہا‘‘* ہے ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:
*’ذکرِ اقبال‘ ، ’سرگزشت‘*(خودنوشت)، *’یارانِ کہن‘، ’مسلم ثقافت ہندوستان میں‘*۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:333*
✦•──┈┈┄┄╌╌╌┈┈───•✦
شاعر عبدالمجید سالکؔ کے منتخب اشعار ..*
اب نہیں جنتِ مشام کوچئہ یار کی شمیم
نکہتِ زلف کیا ہوئی بادِ صبا کو کیا ہوا
—
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
—
حالِ دل سن کے وہ آزردہ ہیں شاید ان کو
اس حکایت پہ شکایت کا گماں گزرا ہے
—
عشق ہے بے گداز کیوں حسن ہے بے نیاز کیوں
میری وفا کہاں گئی ان کی جفا کو کیا ہوا
—
*جو مشتِ خاک ہو اس خاکداں کی بات کرو*
*زمیں پہ رہ کے نہ تم آسماں کی بات کرو*
—
جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی
ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے
—
مرے دل میں ہے کہ پوچھوں کبھی مرشدِ مغاں سے
کہ ملا جمال ساقی کو یہ طنطنہ کہاں سے
—
*نئی شمعیں جلاؤ عاشقی کی انجمن والو*
*کہ سونا ہے شبستانِ دل پروانہ برسوں سے*
—
تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل
سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے
—
*خرد میں مبتلا ہے سالکؔ دیوانہ برسوں سے*
*نہیں آیا وہ مے خانے میں بیباکانہ برسوں سے*
—
غم کے ہاتھوں مرے دل پر جو سماں گزرا ہے
حادثہ ایسا زمانے میں کہاں گزرا ہے
—
*نہ محتسب کی نہ حور و جناں کی بات کرو*
*مئے کہن کی نگار جواں کی بات کرو*
—
*یہ ہے ماجرائے وحشت کہ ملا سراغِ محمل*
*نہ غبارِ کارواں سے نہ درائے کارواں سے*
—
جوہر شناس آئے تو جانے قدر سالکؔ کی
پڑا ہے خاک پر یہ گوہر یک دانہ برسوں سے
●•●┄─┅━━━━━┅─●•●
انتخاب: کامران مغل