ابن آدم سے خطاء نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں، میدان سیاست کا ہو یا جنگ کا، غلطی خارج از امکان نہیں، مملکت خداداد میں ہر سیاستدان نے کچھ ایسی غلطیاں کی ہیں، جن کا خمیازہ ملک و قوم آج بھی بھگت رہی ہے لیکن اگر غلطیوں کو دہرایا جائے تو وہ حماقت بن جاتی ہے، کسی شخصیت کی غلطی، کوتاہی سے اختلاف رکھنا صحت مند معاشرے اور آزادی اظہار کی علامت ہے تاہم اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھانا بھی درست نہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، مسلک، فرقے یا سیاسی جماعت سے ہو، اندھی تقلید کسی بھی طور درست نہیں.
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے کئی اقدامات، پالیسیز پر اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم ان کے کچھ کام ایسے بھی ہیں، جو انہیں قیام پاکستان سے لیکر اب تک کے حکمرانوں سے منفرد بناتے ہیں، اللہ رب العزت نے انہیں اسلام کی بھرپور خدمت کا موقع دیا، انہیں اسلامی اقدامات کا اعزاز بھی حاصل ہوا، جس کا آغاز پہلی بار سرکاری سطح پر پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے عزم سے ہوا، ریاست مدینہ ایک دن، ایک ماہ، ایک سال میں نہیں بن سکتی لیکن منزل تک پہنچنے کیلئے پہلا قدم اٹھانا پڑتا ہے، جو انہوں نے اٹھایا، عمران خان رسول پاک ﷺ کی ناموس کیلئے جذبہ ایمانی کے ساتھ سرگرم عمل رہے،اقتدار سنبھالنے سے لیکر اقتدار کا سورج غروب ہونے تک تقاریر میں کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا امت مسلمہ کے لیڈرز آج تک عالمی دنیا کو یہ سمجھانے میں کیوں ناکام رہےکہ توہین رسالت سے عالم اسلام کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، دل آزاری ہوتی ہے، انہوں نے اپنے دور میں گستاخانہ خاکوں کی روک تھام کیلئے امت مسلمہ کے سربراہان کو خط بھی لکھا اور کہا کہ آج ہمیں مسلم امہ میں مغربی دنیا خاص کر یورپ کی جانب سے اسلامو فوبیا اور پیغمبر اسلام کی تضحیک اور طنز پر مبنی متنازع خاکوں کے ذریعے کئے جانے والے حملوں پر خدشات اور بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے، ان ممالک میں رہنماؤں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ مسلمانوں کو پیغمبر اسلام اور قرآن پاک سے کس قدر محبت اور لگاؤ ہے، صرف یہ ہی نہیں عمران خان نے اپنی تقاریر اور امن پالیسی کے ذریعے ہالینڈ میں خاکوں کی نمائش رکوائی، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ناموس رسالت کا مقدمہ جاندار اور شاندار انداز میں لڑا، ماضی میں کسی بھی حکمران نے اقوام متحدہ میں ناموس رسالت ﷺ کیلئے آواز بلند نہیں کی، عمران خان نے اپنے دور میں رحمت العالمین ﷺ اتھارٹی بنائی، اس سے قبل کسی حکمران کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی، نکاح نامے میں ختم نبوت ﷺ کا کالم شامل کروایا، عمران خان کے ہی دور میں سرکاری و غیر سرکاری امور میں آپ ﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنا اور پڑھنا لازمی قرار پایا، قرآن پاک کی طباعت کیلئے استعمال ہونے والے کاغذ پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے خاتمے کا اعزاز بھی انہیں نصیب ہوا.
یکساں نصاب تعلیم بھی کپتان کی حکومت کا کارنامہ ہے، ایک نصاب کے اصول پر نیا نصاب ترتیب دیا، یہ نصاب بچوں کی جدید تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ کردار سازی، اخلاق سازی اور حب الوطنی کو فروغ دے رہا ہے، نصاب میں قرآن و حدیث کا پڑھنا اور یاد کرنا لازمی ہے جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نے قرآن پاک کی تعلیم کو کالج اور یونیورسٹی سطح پر لازمی قرا دیا، یہ امتحان پاس کئے بغیر کوئی بھی طالب علم بی اے سے پی ایچ ڈی اور میڈیکل کی ڈگری نہیں لے سکتا،
عمران خان نے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران عالمی برادری کو کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے کچھ غلط کیا تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے، ان کی کامیابیوں کی فہرست قدرے طویل ہے، کورونا وبا کے دوران بطور وزیراعظم عمران خان نے معیشت کو درپیش چیلنجز کے باعث مکمل لاک ڈاون کی بجائے اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی اپنائی، جو کارگر ثابت ہوئی،جس کے باعث سکڑتی معیشت پر ممکنہ خطرات نہ صرف ٹل گئے بلکہ ملک و قوم کو بھرپور فائدہ ہوا، حکمت عملی کی بدولت برآمدات میں اضافہ ہوا اور نوکریاں پیدا کرنے میں بھی مدد ملی،
پاکستان میں کیسز اور اموات کی تعداد بھی کم رہی، تحریک انصاف کی حکومت میں پختونخوا میں صحت کارڈ کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت غریب شہریوں کو بڑے اسپتالوں میں علاج کی مفت سہولیات فراہم کی گئیں، جس سے لوگ آج بھی مستفید ہورہے ہیں، پھر منصوبے کو مزید پھیلایا گیا، 8 کروڑ شہریوں کو یہ سہولت فراہم کی گئی، صحت کارڈ کے زریعے کارڈ ہولڈرز کو سالانہ 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک علاج کی سہولت دستیاب تھی، جو بعد ازاں 12 لاکھ تک بڑھادی گئی، اینجیو پلاسٹی، برین سرجری اور کینسر سمیت دیگر امراض کا مفت علاج فراہم کیا گیا، سرکاری اور نجی اسپتالوں کو صحت کارڈ پر مریضوں کے علاج کا پابند کیا گیا، جس میں ملک کے 150 سے زائد اسپتالوں سے علاج کی سہولت فراہم کی گئی،
اس کے علاوہ عمران خان ہی پاکستان کے وہ پہلے حکمران ہیں، جنہوں نے غریب عوام کو آشیانے کی سہولت فراہم کرنے کا نہ صرف ارادہ کیا بلکہ اپنے منصوبے کو عملی جامعہ بھی پہنایا، اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ‘نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی’ قائم کی اور 7 شہروں میں مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا، حکومت نے آسان گھر اسکیم کے تحت بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی بھی ترغیب دی، جس میں 20 لاکھ سے لیکر 1 کروڑ تک قرضے مختلف مدت کیلئے فراہم کرنا شامل ہیں، عمران خان نے ملک کو سرسبز و شاداب بنانے کا نہ صرف خواب دیکھا بلکہ اس کی تعبیر بھی پائی، بلین ٹری سونامی یا ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا آغاز پختونخوا حکومت نے کیا، ایک ارب درخت محکمہ جنگلات اور بنجر زمینوں کے 35,000 ایکڑز پر لگائے گئے، اقوام متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم جیسے اداروں نے اس منصوبےکو سراہا، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور سعودی عرب نے بھی اس طرح کے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا،
غربت کے خاتمے کیلئے عمران خان نے ‘احساس پروگرام’ کے تحت 31 نکاتی ایجنڈا کے ذریعے 115 پالیسی منصوبوں کا اعلان کیا، جس میں اثاثہ جات، بلاسود قرضوں کی فراہمی اور ہنر سازی کے پروگرام کے ساتھ پناہ گاہ شیلٹر ہومز کا بھی ایک اہم منصوبہ شامل تھا، جس کے تحت اسلام آباد، پختونخوا اور پنجاب کے چند شہروں میں بے سہارا اور غریب افراد کیلئے پناہ گاہیں قائم کی گئیں، جہاں قیام کے ساتھ 3 وقت کھانا اور ناشتہ مفت فراہم کیا جارہا ہے، ساتھ ہی ساتھ خواتین کو انکم سپورٹ پروگرام میں ‘کفالت’ پروگرام کے تحت بینک اکاؤنٹس، غریب اور نادار افراد میں راشن کارڈز اجرا اور تحفظ کے نام سے مالی مدد کے پروگرام شامل ہیں،
ایسے مزید بھی کئی اہم اور بنیادی اقدامات ہیں، جن کا ذکر کیا جاسکتا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہےکہ کسی کی مخالفت میں اس قدر نہ گریں کہ اچھائی بھی برائی دکھائی دے اور کسی کی محبت میں بھی اس قدر اندھے نہ ہوں کہ برائی کو بھی اچھائی سمجھیں، ہر انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہے، آپ نہ صرف اپنی اصلاح کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔
تحریر : حفیظ الرحمن بونیری