پین چورقوم

دنیا میں ایک جرم ایسا بھی ہے جس کی آپ نہ ایف آئی آر کٹا سکتے ہیں، نہ مجرم سے جھگڑا کرسکتے ہیں،اور وہ جرم ہے پین مار لینے کا جرم ۔۔ ظاہر ہے ملزم پرآپ مقدمہ اس لئے نہیں کرسکتے کہ چوری بے حد معمولی چیز کی ہے، اور جھگڑا اس لئے نہیں کرسکتے کہ جرم کرنے والا کوئی اور نہیں، آپ کا فیلو ہی ہوتا ہے۔
اس جرم کے کرنے کا طریقہ کار بڑا سادہ ہے، اس کے لئے نہ کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے، نہ کسی طویل منصوبہ بندی کی۔ بس صرف اتنا کرنا ہوتا ہے کہ دوست کے پاس جاکر بس اتنا کہیں کہ یار ایک منٹ پین دینا، اور اس نے آپ کو اپنا پین دے دینا ہوتاہے، پھر اس کے بعد اس کا نہ ایک منٹ پورا ہوگا، نہ آپ مروتاً اس سے پین کا تقاضہ کریں گے۔ اگر تقاضہ کر بھی دیں تو بجائے شکریہ ادا کرنے کے وہ منہ بنا کر پین واپس کرے گا اور کہے گا یہ لو یار اپنا پین۔ یا پھر وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ آپ کوکوئی گولی کرادے کہ وہ پین تو اس سےفلاں بندہ لے گیا۔
اس موضوع پر لکھنے کا خیال کوئی اچانک نہیں آیا، یہ دکھ بھری داستان بہت پرانی ہے، دفاتر میں اسٹاف کو اسٹیشنری فراہم کرنے کا تو اب عرصے سے کوئی رواج ہی نہیں ہے، لہذا جس کو پین سے کام کرنا ہوتا ہے، وہ اپنا پین ساتھ لاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس ایک پین سے کئی لوگوں کا گزارا ہوتا ہے۔

کچھ سال قبل میں نے ایک پوسٹ لگائی کہ دنیا میں دس کروڑ افراد پین لے کر روزانہ دفتر آتے ہیں لیکن واپسی پر وہ پین ان کے ساتھ نہیں ہوتا،آخر اتنی بڑی تعداد میں یہ پین جا کہاں رہے ہیں؟ اس کے جواب میں بڑے دل چسپ کمینٹس آنا شروع ہوئے۔ کچھ نے کہا کہ یہ امریکا کی سازش ہے، کچھ نے انکشاف کیا کہ چوری کے پینوں کا کاروبار کرنے والی ایک زیر زمین دنیا بھی ہے ، یہ تمام پین وہاں جارہے ہیں۔ایک ساتھی نے کہا کہ اس نے تنگ آکر فاؤنٹین پین رکھنا شروع کردیا ہے۔ایک بولا نے میں نے خود کو بدمزاج بنا لیا ہے، اور میں پین مانگنے والوں کو ٹکا سا جواب دے دیتا ہوں ۔
کچھ روز قبل ہماری ٹیبل رکھا ہمارا پین ایک اینکرنی اچانک اچک کر لے گئی، نہ ایک منٹ کہا،نہ پلیز، نہ کوئی اور جملہ ، پھر ہمیں یاد آیا کہ موصوفہ چند روز قبل بھی ہمارا پین خود کو ہدیہ فرما چکی تھیں، ہم نے اْواز لگائی کہ یہ پین قابل واپسی ہے، لیکن کوئی جواب نہ ملا اور وہ اسٹوڈیو میں جاکر گم ہوگئیں۔ہماری آواز سن کر ایک دوست نے کہا کہ یہ تین عدد میرے پین بھی بطور ہدیہ لے چکی ہیں۔۔ان کی بات سن کر ایک اور دکھی دل دوست کو بھی کچھ یاد آگیا، اس نے بھی انگلیوں سے 2 کا اشارہ کیا۔ اس کے بعد کچھ اور بھی ساتھیوں نے اپنے پین مارے جانے کا انکشاف کیا۔ کل ملا کر یہ تعداد ایک درجن بن گئی۔
ایک کہاوت ہے کہ جس سپاہی کے پاس بندوق نہ ہو اس میں اور راہگیر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔اسی طرح میں کہتا ہوں کہ جس صحافی کی جیب میں قلم نہ ہو تو اس صحافی اور موالی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔(ویسے صحافیوں میں آج کل پین والے موالی بھی پائے جانے لگے ہیں)
یہاں ایک دلچسپ حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پوری زندگی میں صرف ایک بار ہی ایسا اتفاق ہوا ہے کہ کوئی بال پین آخری وقت تک پورا استعمال کیا ہو ۔ ورنہ جتنے بھی پین خریدے وہ جوانی میں ہی کسی دوسرے کے ہوگئے۔
پین کا ذکر ہورہا ہے تو یاد آیا کہ ایک دوست نے پین سے متعلق اپنا ایک بڑا کراماتی واقعہ بیان کیا ۔ اس نے بتایا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ گھر سے پین لیکر دفتر نہیں آتا لیکن جب وہ واپس گھر پہنچتا ہے تو جیب سے دو ،دو پین برآمد ہوتے ہیں۔اس پر میں کہا کہ وہ پین تمہارے کو لیگز کے ہرگز نہیں ہوتے بلکہ تم پر تمہارے پیر صاحب کا خاص کرم ہے، ہماری بات سن کر ان کے چہرے پر ایک منحوس سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔
دوستو : بال پین ایک بہت معمولی سی چیز ہے۔اور ظاہر ہے ہم اتنی بھی پین چور قوم نہیں کہ ہم میں سےکوئی چوری کی نیت سے پین غائب کرتا ہوگا۔بلکہ ایمرجنسی یا کسی ضرورت کیلئے ہی مانگ کر یا بغیر مانگے لے جاتا ہوگا۔بس واپس کرنا بھول جاتا ہے، اور پین چور قرار پاتا ہے، تو برائے مہربانی خود کو اس خطاب سے محفوظ رکھیں، اور کام ہوجانے پر پین واپس کردیا کریں۔۔
شکریہ۔۔۔۔
(شعیب واجد)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں